شبِ وصال زباں سے خدا خدا نکلے |
میں تو کچھ اور ہی سمجھا تھا آپ کیا نکلے |
ہے یہ جدید صدی اور آرزو میں ہم |
عجب نہیں کہ بیک وقت بے وفا نکلے |
اٹک کے رہ گئے ہیں کار گاہِ وحشت میں |
وہ فیصلہ جو سناۓ تو مدعا نکلے |
ہزار مائلِ پیمان تم سے پہلے بھی |
دیار و دشتِ تمنا میں خود نُما نکلے |
کئی برس کے تسلسل سے ماجرا نکلا |
کہ ہم! مزاج میں جاناں جدا جدا نکلے |
غبارِ وقت بدن سے ہٹائی تو ہوا علم |
نشاں فریبِ تمنا کے دیر پا نکلے |
ہے حال ایسا کہ بے آسراؤں کے لیے زیبؔ |
سراۓ وحشتوں میں ضبط کا سِرا نکلے |
معلومات