ایک طوفان تجھے دھیان میں لانے سے اٹھا
آخرش ہار کے دل ضبط کے خانے سے اٹھا
اٹھ گیا عالمِ وحشت کی ہر اک شے سے دل
درِ جاناں سے نہ ہر چند اٹھانے سے اٹھا
دربدر ہے دلِ بے بس بھی، شکستہ ہے ذات
اور ہر خواب مرا نیند کے شانے سے اٹھا
اٹھ کھڑا ہے ترا غم بھی، غمِ حالات کے ساتھ
جس طرح کوئی شجر جو کسی دانے سے اٹھا
آج تک گرد میں بے سود اُڑا جاتا ہوں
میں پرندہ! جو مقدر کے نشانے سے اٹھا

0
22