ایک طوفان تجھے دھیان میں لانے سے اٹھا |
آخرش ہار کے دل ضبط کے خانے سے اٹھا |
اٹھ گیا عالمِ وحشت کی ہر اک شے سے دل |
درِ جاناں سے نہ ہر چند اٹھانے سے اٹھا |
دربدر ہے دلِ بے بس بھی، شکستہ ہے ذات |
اور ہر خواب مرا نیند کے شانے سے اٹھا |
اٹھ کھڑا ہے ترا غم بھی، غمِ حالات کے ساتھ |
جس طرح کوئی شجر جو کسی دانے سے اٹھا |
آج تک گرد میں بے سود اُڑا جاتا ہوں |
میں پرندہ! جو مقدر کے نشانے سے اٹھا |
معلومات