شوق کی آن بان جاتی ہے
تیرے جانے سے جان جاتی ہے
ہم سخن ور جو اٹھ رہیں واں سے
وحشتوں کی دکان جاتی ہے
گھوم پھر کے گلی گلی لیکن
گرد میرے مکان جاتی ہے
رات گویا عذاب ہے یارو
اک نگہ آسمان جاتی ہے
نہیں کچھ مسئلہ بچھڑنے میں
زیبؔ لیکن زبان جاتی ہے

0
64