| اک خلش ہے کہ جو ہر شب دلِ ناکام کے ساتھ |
| کھیل سا کھیلتی ہے نسخۂِ آلام کے ساتھ |
| مجھ کو اب تیری تمنا نہیں پھر جانے کیوں |
| رہتی ہے ایک اداسی سی مجھے شام کے ساتھ |
| ایک بے معنی تسلسل میں کہیں اٹکا ہے دل |
| یوں خلل ہے کہ جیے جاتے ہیں ابہام کے ساتھ |
| وصل تو جیسے مشقت سی تھی ہر لمحے میں |
| ہجر میں بیٹھ گیا ہوں بہت آرام کے ساتھ |
| وعدۂِ شب تھا کبھی لطفِ رفاقت کی آس |
| اب فقط یاد میں باقی ہے وہ ہر گام کی ساتھ |
| رات کے پچھلے پَہَر سوچتا ہوں میں اکثر |
| کیا نہ اچھا تھا مجھے؟ گردشِ ایّام کے ساتھ |
| وقت کی دھول میں اب لپٹا ہوا، یعنی میں! |
| اک عجب بارِ جنوں ساز ہوں انجام کے ساتھ |
معلومات