خواہشِ لطفِ گفتگو لفظِ شرر کے بعد بھی؟
دل! کہ فسردہ تک نہیں ایسی خبر کے بعد بھی!
ایک اثر ہے بے نمو ایک اثر کے بعد بھی
اجرتِ دل کا حوصلہ؟ دامِ جگر کے بعد بھی!
ایک سفر ہے سامنے ایک سفر کے بعد بھی
منزلِ رفتگاں ہے پیش وحشتِ گھر کے بعد بھی
حلقۂِ بے دلاں سے دور، اور ہو کیسے اختصار؟
ضربِ حیات لگتی ہے بارِ سِپر کے بعد بھی
محوِ فراق ہوں مگر، سوزشِ وصل ہو کہ میں!
طالبِ اخذِ ابتلا دستِ ہنر کے بعد بھی
کوئی نبھاہ میں نہیں، اور کوئی راہ میں نہیں
دن میں ہے اک تھکن ابھی، مژدہ سحر کے بعد بھی
اک تپشِ درونِ ذات! کانٹا کھٹکتا جاتا ہے
اشک جو دل میں ہے چھپا، دیدۂِ تر کے بعد بھی
اپنی طرف سے میں نے تو، شوق میں سب کیا مگر
ٹوکتا ہے وہ غلطئیِ زیر و زبر کے بعد بھی
کیسا شریر شخص ہے بزمِ عدو سے جا ملا
پھر بھی جتاتا ہے نبھاہ، کارِ مکَر کے بعد بھی
ایک خلا میں زندگی! آۓ جہاں سے بے دلی
اجڑا ہوا ہے سلسلہ گامِ بسر کے بعد بھی
شوق و جنوں تو دیکھیے دنگ ہے قوتِ خرد
دل ہے خرامِ آرزو! بارِ حَذر کے بعد بھی
ضبط سے جھیلتا رہا نخوتِ کوۓ یار کو
زندہ ہوں جانے کس طرح ایسے ہنر کے بعد بھی
زیبؔ کہاں کی الفتیں زیبؔ کہاں کی صحبتیں
محوِ فنا ہیں عہد و دل، عمرِ خضر بعد بھی

0
14