بسے ہیں آ کے کہاں غیر ہیں در و دیوار
حیات مائلِ چپ مجھ کو جوشِ استفسار
یہ لامکانی کی صورت یہ وحشتوں کا حصار
یہ گرد گرد کا عالم یہ صحبتِ آزار
یقیں کا ہے سرے کوۓ گمان میں پرچار
عجب نہیں کہ تماشائی خود ہیں خود فنکار
تراش لیجے مکھوٹے ہے یہ عجب بازار
یہاں ہے جذبوں کا بیوپار، چھل پہ دارومدار
ہے پھر سے آس، تو تقدیر غصے سے دو چار
لکھا گیا ہوں ہلاکت کے پنّے پر لگا تار
نہ جانے کس کی حراست میں ہے یہ ثقلِ مُدار
نظر اٹھاؤ تو حدِّ نظر ہے گرد و غبار
جھلس گیا ہے بدن جھیلنے میں یہ آکار
یہاں ہیں لمحہ بہ لمحہ سراب کے آثار
کیا ہے ہم کو تمنا نے خوب شرمندہ
نڈھال ہوۓ بضد زورِ پرسشِ بیکار

0
13