زیست نے کتنی آس چھانی ہے
رائگانی ہی رائگانی ہے
اب کوئی بھی کسی کا دوست نہیں
اب فقط بزدلی نبھانی ہے
چار سو ہیں درِ گمان و فریب
ہم نے یہ جان ہار جانی ہے
مطمئن ہونا وعدے سے پھِر کر
کتنا ہی کارِ احمقانی ہے
سانس چلنے کو واہموں کے بیچ
ہجر پینا ہے گَرد کھانی ہے
جوڑ لیتا ہوں اہلِ دنیا سے ربط
ذہن میں کتنی بدگمانی ہے
حالِ عجلت میں عہد و پیماں زیبؔ
ہاۓ! کیا خوب سازِ فانی ہے

2
24
ماشا اللہ غزل بڑی خوبصورت ہے ۔۔۔۔۔میرے خیال سے چھٹے شعر کا پہلا مصرع خارج فی الوزن ہے

0
بہت شکریہ محترم۔

میرے علم کے مطابق وزن میں ہے
تقطیع دیکھیے

فاعلاتن مفاعلن فعلن

فا ع لا تن
جو ڑ لے تا

مفاعلن
م فا ع لن
ہُ اہ لِ دن

فعِلان
ف ع لا ن
یَ سِ رب ط