| زیست نے کتنی آس چھانی ہے |
| رائگانی ہی رائگانی ہے |
| اب کوئی بھی کسی کا دوست نہیں |
| اب فقط بزدلی نبھانی ہے |
| چار سو ہیں درِ گمان و فریب |
| ہم نے یہ جان ہار جانی ہے |
| مطمئن ہونا وعدے سے پھِر کر |
| کتنا ہی کارِ احمقانی ہے |
| سانس چلنے کو واہموں کے بیچ |
| ہجر پینا ہے گَرد کھانی ہے |
| جوڑ لیتا ہوں اہلِ دنیا سے ربط |
| ذہن میں کتنی بدگمانی ہے |
| حالِ عجلت میں عہد و پیماں زیبؔ |
| ہاۓ! کیا خوب سازِ فانی ہے |
معلومات