اے مرے گزرے ہوۓ وقت اے ماضی کے دوست
آج کیا طرزِ گماں ہے؟
کیا خلش کیسی چبھن جس کے لپٹیے میں ہے دل
سمت ہر سمت اندکار ہے اور میں!
ایک دیوار ہے اور میں!
آج کیا وہم ہے دل کو؟
کیوں خطاکارِ ملامت ہوۓ جاتا ہے
خود میں جو دفن ہے وہ ڈھونڈ کے لاتا ہے
لمحہ ہر لمحہ مشقت!
آن ہا آن مصیبت!
آج کیا ذوقِ طرف داری اٹھا ہے؟
ایک بے رنگ سی معماری ہے
میرے دل! تجھ کو کوئی بیماری ہے؟
آج کیا سوز رفاقت ہے؟
گزرے ایّام کی آغوش میں سر رکھا ہے
بے سبب آنکھوں کو بھر رکھا ہے
اے مرے گزرے ہوۓ وقت اے ماضی کے دوست!
عمر! جو گزری ہے جیسے تیسے!
مجھ کو افسوس ہے ویسے!

2
56
واہ واہ واہ
سبحان اللہ

بہت شکریہ محترم

0