جو یوں لپٹی ہوئی ہے تُو مجھ سے
کس قدر جلتا ہے عدو مجھ سے
کبھی کیجو تُو گفتگو مجھ سے
ایک پہلو ہے بے نمو مجھ سے
وصل! گویا خیالِ تہہ در تہہ
کیسے ہو ترکِ آرزو مجھ سے
تیری آواز اور تری خوشبو
ملتی رہتی ہے کُو بہ کُو مجھ سے
اک تسلسل سے جلتا رہتا ہوں، اور
گالیاں کھاۓ کاخ و کُو مجھ سے
تجھ کو دیکھوں تو کیا تعجب ہے
چھوٹ جاۓ اگر سبو مجھ سے
زیب؟ یعنی کہ میں! گماں کا ہوں
ہو گیا میں ہی روبرو مجھ سے!

0
22