| جو یوں لپٹی ہوئی ہے تُو مجھ سے |
| کس قدر جلتا ہے عدو مجھ سے |
| کبھی کیجو تُو گفتگو مجھ سے |
| ایک پہلو ہے بے نمو مجھ سے |
| وصل! گویا خیالِ تہہ در تہہ |
| کیسے ہو ترکِ آرزو مجھ سے |
| تیری آواز اور تری خوشبو |
| ملتی رہتی ہے کُو بہ کُو مجھ سے |
| اک تسلسل سے جلتا رہتا ہوں، اور |
| گالیاں کھاۓ کاخ و کُو مجھ سے |
| تجھ کو دیکھوں تو کیا تعجب ہے |
| چھوٹ جاۓ اگر سبو مجھ سے |
| زیب؟ یعنی کہ میں! گماں کا ہوں |
| ہو گیا میں ہی روبرو مجھ سے! |
معلومات