| تُو جو اس طرح سے عتاب میں ہے |
| جانَ جاں! میری جاں عذاب میں ہے |
| آنکھ کھلتے ہی ذہن میں ہے تُو |
| آنکھ لگتے ہی میرے خواب میں ہے |
| مختصر ماجرا بتاؤں اگر |
| درد ہی درد انتخاب میں ہے |
| دل بضد شوقِ وصل میں بے طرح |
| آجکل خواہشِ شراب میں ہے |
| دامِ عجلت ہے ایک بھاری قرض |
| کر کے پیمان! دل حساب میں ہے |
معلومات