رمزِ تنہائی، دمِ ہجر ، دلِ زار کے ساتھ |
کوئی دیوانہ لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ |
تُو نہیں ہے تو ترے ہجر کی لذت ہی سہی |
عمر ڈھلتی رہے گی لمحۂِ بیکار کے ساتھ |
تیرے ملنے کا طریقہ بھی پہیلی سا تھا |
آشنا تجھ سے ہوۓ ربط ہوا خار کے ساتھ |
تُو نے آغوش میں کس طور رکھا تھا ہم کو |
کتنے نا خوش تھے ترے سینۂ بیزار کے ساتھ |
سوگواری تھی اداسی تھی ترے ہوتے بھی |
گو تُو موجود تھا لیکن کسی آزار کے ساتھ |
ایسی عجلت تھی تری فطرتِ عیاری میں |
خود پسندی سی تھی آئینۂِ بیوپار کے ساتھ |
منظرِ عیش ہے آنگن میں کہ تیری فرقت |
ایک رقاصہ بنی ہوئی ہے چھنکار کے ساتھ |
کتنا حساس بنا ڈالا ہے گزرے کل نے |
چوٹ کھاتا ہوں کبھی سایۂِ دیوار کے ساتھ |
زیست اول تو بہت خواب دکھاتی رہی زیبؔ |
پھر جھڑک ڈالا ہمیں لفظِ خبردار کے ساتھ |
معلومات