رمزِ تنہائی، دمِ ہجر ، دلِ زار کے ساتھ
کوئی دیوانہ لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
تُو نہیں ہے تو ترے ہجر کی لذت ہی سہی
عمر ڈھلتی رہے گی لمحۂِ بیکار کے ساتھ
تیرے ملنے کا طریقہ بھی پہیلی سا تھا
آشنا تجھ سے ہوۓ ربط ہوا خار کے ساتھ
تُو نے آغوش میں کس طور رکھا تھا ہم کو
کتنے نا خوش تھے ترے سینۂ بیزار کے ساتھ
سوگواری تھی اداسی تھی ترے ہوتے بھی
گو تُو موجود تھا لیکن کسی آزار کے ساتھ
ایسی عجلت تھی تری فطرتِ عیاری میں
خود پسندی سی تھی آئینۂِ بیوپار کے ساتھ
منظرِ عیش ہے آنگن میں کہ تیری فرقت
ایک رقاصہ بنی ہوئی ہے چھنکار کے ساتھ
کتنا حساس بنا ڈالا ہے گزرے کل نے
چوٹ کھاتا ہوں کبھی سایۂِ دیوار کے ساتھ
زیست اول تو بہت خواب دکھاتی رہی زیبؔ
پھر جھڑک ڈالا ہمیں لفظِ خبردار کے ساتھ

0
2
67
بہت خوب

شکریہ

0