| ہے ایک جبرِ مسلسل گماں کے پیشِ نظر |
| کوئی صلہ بھی ہو اس امتحاں کے پیشِ نظر |
| عجب جہانِ خرد ہے بتاں کے پیشِ نظر |
| خیالِ زعم ہے سود و زیاں کے پیشِ نظر |
| ہمارے بعد کہے ہیں ہماری مرقد پر |
| سلام عرض ہو ان رفتگاں کے پیشِ نظر |
| کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے طرزِ پیماں میں |
| کئی حماقتیں کی ہیں زباں کے پیشِ نظر |
| کسے خبر ہے کہ بچھڑے ہوۓ کہاں ہیں سو |
| کئی سفر کیے ہر اک نشاں کے پیشِ نظر |
| ملا ہے غیب سے اک رہمناۓ دشت و جہان |
| یوں رات سہل ہوئی آسماں کے پیشِ نظر |
| ہیں دشمنانِ زمانہ کہ دیکھ دیکھ چلیں |
| سراب دیکھیے عمرِ رواں کے پیشِ نظر |
| ہے خامشی کی ردا لب پہ اور درونِ ذات |
| تھکن بسی ہے دلِ بے کساں کے پیشِ نظر |
| مصیبتوں سے نکل جاؤں لیکن اصل میں زیبؔ |
| مصیبتیں ہیں مری ناصحاں کے پیشِ نظر |
معلومات