میں ہوں بے گھر و دلِ بےخبر جسے زندگی نے بھلا دیا |
کبھی فیصلوں میں الجھ گیا کبھی راستوں نے تھکا دیا |
یہ عجیب طرزِ حیات ہے جو سمجھ نہ آۓ وہ بات ہے |
کبھی بے خودی سے مزہ ملا کبھی آگہی نے ڈرا دیا |
میں کہ ڈوبتا ہوا رم بہ رم اسے دیکھتا رہا غور سے |
جسے کھینچنا تھا ضرر رساں مجھے زیست نے وہ سِرا دیا |
تجھے واسطے بھی بہت دیے ابھی شرمسار ہوں اس لیے |
میں نے ایک لذتِ آس میں سبھی اپنا وقت گنوا دیا |
نہ وہ شام لوٹ کے آئی پھر نہ ہی دل نے شوقِ خبر رکھا |
یونہی گردشوں میں کہیں میں نے دلِ آرزو کو بہا دیا |
معلومات