میں ہوں بے گھر و دلِ بےخبر جسے زندگی نے بھلا دیا
کبھی فیصلوں میں الجھ گیا کبھی راستوں نے تھکا دیا
یہ عجیب طرزِ حیات ہے جو سمجھ نہ آۓ وہ بات ہے
کبھی بے خودی سے مزہ ملا کبھی آگہی نے ڈرا دیا
میں کہ ڈوبتا ہوا رم بہ رم اسے دیکھتا رہا غور سے
جسے کھینچنا تھا ضرر رساں مجھے زیست نے وہ سِرا دیا
تجھے واسطے بھی بہت دیے ابھی شرمسار ہوں اس لیے
میں نے ایک لذتِ آس میں سبھی اپنا وقت گنوا دیا
نہ وہ شام لوٹ کے آئی پھر نہ ہی دل نے شوقِ خبر رکھا
یونہی گردشوں میں کہیں میں نے دلِ آرزو کو بہا دیا

0
45