شامِ بے دلی میں ہے اک گمان بار بار
جاتا ہے تری طرف میرا دھیان بار بار
رات کے اندھیروں میں ایک بھٹکا راہرو
دیکھتا ہے گھبرا کے آسمان بار بار
ہم فنا کے تھے ہی تھے آرزو بھی سر لے لی
پیش ہے یہ منزلِ امتحان بار بار
طرزِ نَو سے ہوتا ہے ماجراۓ سوزِ ہجر
اور زخم لکھتے ہیں داستان بار بار
زیبؔ گاہے گاہے ہم ایسے رنگ میں ڈھلے
دل نے کی ہے خواہشِ رفتگان بار بار

0
34