کیسے عجب جواز کا مارا ہوا تھا میں
یعنی ترے لحاظ کا مارا ہوں تھا میں
دنیاۓ جعلساز کا مارا ہوا تھا میں
اور عرصۂِ دراز کا مارا ہوا تھا میں
مجھ کو فریب کھا کے ملا ہے بہت سکون
اک خوۓ جلد باز کا مارا ہوا تھا میں
تھی صبح سرخ چشمِ تمنا کی داستاں
شاید شبِ گداز کا مارا ہوا تھا میں
ہر لمحہ تیری آس میں اک عمر بیتی ہے
تجھ ایسے دلگداز کا مارا ہوا تھا میں

0
67