الجھی ہے سوچ ذہن تضادات کا شکار
یوں ہے کہ آدمی ہوا حالات کا شکار
حالت یہ ہے کہ ہر کوئی شوریدہ سر ہوا
اک طعنہ زن تو دوجا خرافات کا شکار
ان سے تو پوچھو ہجر تھکاتا ہے کس طرح
کمرے میں رہ کے جو ہیں مسافات کا شکار
ایک ایسی دوڑ سی ہے جہانِ خراب میں
عجلت میں ہر کوئی ہوا صدمات کا شکار
کیا جھونجنا ہے تنگئِ حالات سے اے زیب
آخر کو زندگی ہے فقط مات کا شکار

0
137