جبر کرتے ہیں بشر جیسے ہو حیوان کی سوچ
آ کے رکتی ہے کہاں دیکھیے انسان کی سوچ
خود تحیر میں پڑی ہے کسی حیران کی سوچ
تم پہ ٹھہری ہوئی ہے ایک پریشان کی سوچ
منتشر ہیں سبھی سمتیں بھی مری حالت کی
آپ اپنے سے جدا ہے مرے وجدان کی سوچ
ہجر بہتر کہ ترا وصل اسی میں گم ہوں
سخت مشکل ہوئی یہ حالتِ ہیجان کی سوچ
دن ڈھلا تھا کہیں لمحات کی ترکیبوں میں اور
کھو گئی شامِ الم میں کسی نادان کی سوچ
تجھ سے مطلب ہے ہمیں پر نہیں عرضِ مطلب
کیسی گھٹیا ہے ترے کوچۂِ دربان کی سوچ
میں بھی رہتا ہوں کسی دھیان میں تیری ہی طرح
سوچتی ہے مجھے، لیکن کسی انجان کی سوچ
دل کے گوشوں میں ہے آباد جہانِ آسیب
خاطرِ شوق کسی حال میں ہے دھیان کی سوچ
حسبِ معمول فنا، حسبِ روایت ناکام
قصۂِ دہر میں عشّاق و قدر دان کی سوچ
گریہ سے بھی کبھی لوٹے ہیں بچھڑنے والے؟
چشمِ پُر آب پہ بے بس ہوئی مژگان کی سوچ
سرِ بازار تمہیں رسوا کریں باعثِ ہجر؟
یہ تو اللہ قسم ہے کسی شیطان کی سوچ

0
116