آرزو جو کرے تو ڈٹ جاۓ
چاہے پھر عشق میں نپٹ جاۓ
بے خودی میں سخن کا عقل و شعور
کیا پتا آگہی میں گھٹ جاۓ
آ تو جاتا ہوں تیرے در کے قریب
عین ممکن ہے دل پلٹ جاۓ
ہم نے اس طور دکھ اٹھاۓ ہیں
کیا پتا آسمان پھٹ جاۓ
وہ مری زندگی میں یوں آیا
جیسے طوفان سب الٹ جاۓ
حلیہ میرا یوں بگڑا ہے جیسے
شیشہ دیوار پر گھسٹ جاۓ
پاؤں کو دیکھ کر میں کہتا ہوں
کچھ مسافت مری سمٹ جاۓ

0
94