اول اول کی آشنائی میں
میں تو خود گر پڑا ہوں کھائی میں
اب کہ تم یاد ہی نہیں آتے
کیا مزہ رہ گیا جدائی میں
کیا ہوۓ پھر تم اور میں آخر
دل کی اس زور آزمائی میں
ہاتھ مل مل کے رہ گیا ہوں میں
آرزوؤں میں نارسائی میں
کھودتا ہوں گئے دنوں کو مگر
کچھ نہیں رکھا اس کھدائی میں
گھر کے گھر ہوتے ہیں تباہ کہ جب
پھوٹ پڑتی ہے بھائی بھائی میں
کوئی انعام ملتا ہے شاید
اس دکھاوے کی پارسائی میں
اب تو دولت خدا بنی ہوئی ہے
اے خدا! تیری اس خدائی میں
اہلِ دنیا رواں دواں ہیں زیبؔ
کج ادائی میں بے حیائی میں

0
47