امیرِ شہر تری موت ہے ہمیں مقصود |
کہ تُو ہے خصلتِ نمرود تُو ہے مثلِ یہود |
نہیں ہے خوف، ہے اللہ کے ہاتھ بود نبود |
کہ کٹ گریں گے نہیں مانیں گے نظامِ قیود |
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا |
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا |
اے مستِ دولت و عیاش آۓ گی یلغار |
نہ تھم سکے گی شعور و جنون کی رفتار |
نہ غیر ملکی ہے وہ اور نہ ملک سے ہے فرار |
جو بند ہے ابھی زنداں میں اس پہ جاں ہے نثار |
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا |
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا |
بلا سے کتنے ہی بارود آزما لے تُو |
بلا سے کتنی ہی رائفلیں چلا لے تُو |
اے حکمرانِ زماں! جو بھی ظلم ڈھا لے تُو |
اے حکمرانِ زماں! کتنا ہی ڈرا لے تُو |
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا |
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا |
عدالتیں بھی بکی اور بکے ہیں یہ ایوان |
حریفِ جان ہوۓ ہیں یہ وقت کے سلطان |
نہ ٹوٹے گا نہ بکے گا نہ ہی جھکے گا خان |
بڑی ہی مشکلوں سے پایا ہم نے یہ کپتان |
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا |
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا |
تجھے سہارا عدو کا؟ ہماری جانے بلا! |
ہمیں شعور ہے آزادی کا ہمیں نہ ڈرا |
تری ہی بات کریں؟ جیسے تُو ہے کوئی خدا؟ |
ہیں مستِ نعرۂِ دل ہم کوئی غلام ہیں کیا؟ |
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا |
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا |
معلومات