| ہر وقت یہی ضد ہے کہ پہلو میں نہیں ہے |
| دل ایک کمینہ مرے قابو میں نہیں ہے |
| کیا شکوۂِ دل کیجیے اس شوخ ادا سے |
| یعنی جو مزہ چپ میں ہے تھُو تھُو میں نہیں ہے |
| یا تو میں کسی حال میں بے حال ہوں یا پھر |
| تاثیر کوئی زلف کی خوشبو میں نہیں ہے |
| جس پر یہ لکھا تھا کہ نہ ہو ترکِ مراسم |
| کیا خط کا وہ ٹکڑا ترے پلو میں نہیں ہے؟ |
| ہر غم کو شکایت تری آغوش سے تھی، پر |
| پہلے سی پکڑ اب ترے بازو میں نہیں ہے |
معلومات