ہر وقت یہی ضد ہے کہ پہلو میں نہیں ہے
دل ایک کمینہ مرے قابو میں نہیں ہے
کیا شکوۂِ دل کیجیے اس شوخ ادا سے
یعنی جو مزہ چپ میں ہے تھُو تھُو میں نہیں ہے
یا تو میں کسی حال میں بے حال ہوں یا پھر
تاثیر کوئی زلف کی خوشبو میں نہیں ہے
جس پر یہ لکھا تھا کہ نہ ہو ترکِ مراسم
کیا خط کا وہ ٹکڑا ترے پلو میں نہیں ہے؟
ہر غم کو شکایت تری آغوش سے تھی، پر
پہلے سی پکڑ اب ترے بازو میں نہیں ہے

0
55