| آزار سے گِھرا ہوا بے زار، ٹھیک ہے |
| بیمار ہو کے بھی ترا بیمار ٹھیک ہے |
| کوئی رہے گا نازِ محبت میں زیرِ رم |
| کوئی فریبِ خوگرِ پندار ٹھیک ہے |
| ایسی شکست و ریخت کا گھاؤ ملا کہ اب |
| مسمار ہے امید سو مسمار ٹھیک ہے |
| یہ شکوۂِ فراق بھلا کس سے کر رہیں؟ |
| کیا حالِ دل سنائیں؟ کہ بس یار! ٹھیک ہے |
| میں پوچھتا ہوں اہلِ خرد بار سے یہ بات |
| اچھا ہے کون یاں؟ کوئی کردار ٹھیک ہے؟ |
| میں ایک جسمِ سوز ہوں سو میرے ارد گرد |
| ان تلخیوں کی گردشِ سیّار ٹھیک ہے |
| چلتے ہیں سر کٹانے کو ہم آج منہ کے بل |
| کوۓ بتاں میں دامِ خطا کار ٹھیک ہے |
معلومات