آرزو دل کی مرے دل سے بہاۓ نہ بہے
یہ وہ معشوق نُما ہے جو ہٹاۓ نہ ہٹے
اول اول کی شناسائی کے کیا کہنے کہ جب
کچھ دِکھاۓ نہ دِکھے اور سناۓ نہ سنے
رفتہ رفتہ ہوۓ جانا ہے گریزاں آخر
ربط کے بعد کا رشتہ تو بناۓ نہ بنے
سچ تو یہ ہے کہ تجسس ہے محبت کا حریف
جب یہ پورا ہوا تو لطف بڑھاۓ نہ بڑھے
یعنی متضاد کا ملنا ہے جنوں کا اخراج
یہ وہ بنیاد ہے یارو جو گراۓ نہ گرے
پھر کسی دل کا نکالا ہوا، رہروۓِ دشت
ایسا گمراہ ہے بیچارہ، بساۓ نہ بسے
لاکھ سر پیٹ کے رہ جاتے ہیں دل کے مجبور
لاش ماضی کی مری جان اٹھاۓ نہ اٹھے

69