جذبوں کے لین دین میں، بیوپاری میں نہ تھے
سن تو سہی ہم ایسی خریداری میں نہ تھے
بے فکرِ شوق، نیند پرست اور عجیب خُو
ہم کیسے بھی تھے کچھ بھی تھے عیّاری میں نہ تھے
کس طرح عہدِ ترکِ وفا کر لیا گیا
کس طرح کہہ دیا گیا ہم یاری میں نہ تھے
ہم تو وہ تھے جو تیرے تغافل میں چپ رہے
مطلب یہ تو نہیں ہے کہ بیزاری میں نہ تھے
کچھ اس لیے بھی گوشہ نشیں ہیں کہ جانِ من
سنجیدہ لوگ قصۂِ بازاری میں نہ تھے
شوق و جنوں کی لاج میں تجھ ایسے کو سہا
ورنہ تو بے زباں نہ تھے لاچاری میں نہ تھے
ٹکرانا زیبؔ سے کسی کے بس کا ہے نہیں
تیرا لحاظ تھا سو جہاں داری میں نہ تھے

0
69