یہ کیسے کیسے درد خدا نے بناۓ ہیں
قیمت گھٹا کے اپنی ترے پاس آۓ ہیں
ہم اہلِ آرزو نے بڑے جوش و جذبے سے
بس گزرے ہوۓ وقت کے لاشے اٹھاۓ ہیں
جب کوئی چھل کرے تو ہر بار کی طرح
بس ٹکٹکی سی باندھ کے ہم سر کھجاۓ ہیں
تم تو فریبِ وصل میں ماہر سی لگتی ہو
پہلے بھی ہم سے، کتنے تمہارے ستاۓ ہیں
وہ ڈھلتے آفتاب کا منظر وہ شام غم
تم کو وداع کر کے بہت مسکراۓ ہیں
یہ میرا حجرہ اور در و دیوار کی گھٹن
ایسی مسافتیں کہ بہت دور آۓ ہیں
جب سارا شہر سو گیا ہے گہری نیند میں
ہم تم کو یاد کر کے یونہی سر کھپاۓ ہیں
پردیسیوں کے دکھ تو وہی جانتے ہیں صرف
افسردہ دل ہیں اور گھروں کے کراۓ ہیں
یہ حکمرانیاں جو غریبوں کو کھا گئیں
یہ کیسے لوگ ہیں جو خدا کو بھلاۓ ہیں

0
62