یہ کیسے کیسے درد خدا نے بناۓ ہیں |
قیمت گھٹا کے اپنی ترے پاس آۓ ہیں |
ہم اہلِ آرزو نے بڑے جوش و جذبے سے |
بس گزرے ہوۓ وقت کے لاشے اٹھاۓ ہیں |
جب کوئی چھل کرے تو ہر بار کی طرح |
بس ٹکٹکی سی باندھ کے ہم سر کھجاۓ ہیں |
تم تو فریبِ وصل میں ماہر سی لگتی ہو |
پہلے بھی ہم سے، کتنے تمہارے ستاۓ ہیں |
وہ ڈھلتے آفتاب کا منظر وہ شام غم |
تم کو وداع کر کے بہت مسکراۓ ہیں |
یہ میرا حجرہ اور در و دیوار کی گھٹن |
ایسی مسافتیں کہ بہت دور آۓ ہیں |
جب سارا شہر سو گیا ہے گہری نیند میں |
ہم تم کو یاد کر کے یونہی سر کھپاۓ ہیں |
پردیسیوں کے دکھ تو وہی جانتے ہیں صرف |
افسردہ دل ہیں اور گھروں کے کراۓ ہیں |
یہ حکمرانیاں جو غریبوں کو کھا گئیں |
یہ کیسے لوگ ہیں جو خدا کو بھلاۓ ہیں |
معلومات