کیسی منزل کیا رستہ!
کہ کہاں کے ہیں ہم کس سے وابستہ؟
دل میں کچھ ایسے سوال اٹھتے رہتے ہیں
سہمے ہوۓ سے خیال اٹھتے رہتے ہیں
اول تو خودی یہ مصیبت سر لی تھی
اک ہی نادانی اکثر کر لی تھی
گامِ عجلت میں کیے ہوۓ پیماں سے
اس دنیا کے انساں سے
کب تک بھاگو گے پیارے؟
وہ زمانہ ہاں وہ زمانہ!
جب تیری آنکھیں تھیں مے خانہ
جب تیری دید تھی لذت کا پیمانہ
کبھی قربت میں بہہ جانا
کبھی فرقت کا تانا بانا
کبھی سوچوں میں گھر کو بسانا
کبھی جنبش سے اس کا ڈھے جانا
کتنے لمحے تھے بہیمانہ
اب تو وہ نقش و نشاطِ دلِ برباد کہاں
غم تو کیا! غم کی وہ یاد کہاں
اس منظرِ بے رنگ و بے زاری سے
سانسوں کی دشواری سے
کب تک بھاگو گے پیارے؟
فرقت میں مر جانا آسان کیا کرتے تھے
ہم بھی یہ گمان کیا کرتے تھے
اب جو زندہ ہیں تو کیا معنی؟
ہر اک حسرت تھی لایعنی
ہر اک پیمان تھا بے معنی
اس صورتِ لایعنی و بے معنی سے
کب تک بھاگو گے پیارے؟

0
24