| کل شب عجب معاملہ درپیش تھا مجھے |
| دیوار دیکھتا رہا ہر زاویے سے میں |
| ہر سوچ اک چبھن کی طرح لگتی ہے مگر |
| افسوس ہے کہ باز نہیں سوچنے سے میں |
| اب تو اٹَا ہوں جانے یہ کس گرد و بار میں |
| کیا دکھ کروں! کہ شامِ تمنا کے ڈھب گئے |
| آوارگی ہے عمر کی اک بند کمرے میں |
| جتنے برس گئے ہیں مرے مضطرب گئے |
| کس سمت لا کے پھینکا ہے اس بار وقت نے |
| حیرت سے آنکھ اٹکی ہے گھڑیال کی طرف |
| دشتِ گماں میں خود کو تسلی سے روند کر |
| بے سدھ ہوں دیکھ کے دلِ بے حال کی طرف |
| کس کس کی دسترس میں رہا ہے ذلیل دل |
| کس کس سے شکوۂِ دلِ بے چارگی کروں؟ |
| اب چاہتا ہوں درد کو کچھ چکما دے کے میں |
| خود کو ہنساؤں شہر میں آوارگی کروں! |
معلومات