| آوارہ آرزوئیں، گماں اور خامشی |
| اک وقت سے اداس ہے ماحولِ زندگی |
| کچھ دوست جو ہمیشہ مرے ساتھ ساتھ ہیں |
| میرے خیال میری امید اور بے کلی |
| میلوں کہیں زمیں کے کنارے پہ ہوں مگر |
| وہ شہر میرے دھیان میں آباد اب بھی ہے |
| صبحِ شعور تو رہے مصروفِ روزگار |
| شامِ گمان وہ دلِ برباد اب بھی ہے |
| رودادِ زیست ہے کہ جو ہر چند زورِ عقل |
| ہر بار لکھی جاتی رہی ورقِ شوق پر |
| یوں تو عجیب یہ ہے مگر دہر کا تضاد! |
| یعنی بدن قفس میں ہے اور ذات دربدر |
معلومات