یہ دو جہاں! یقین و گماں! ان کے درمیاں
بس اک مساوی جنگ چھڑی ہوئی ہے جہاں
ہاں اک جہانِ رنگِ پراسرار بھی ہے یہاں
جانے یہ کون شخص ہے جانے ہے کیا گماں
میں سوچتا ہوں کون ہے یہ میرے آس پاس
جو جاتا بھی نہیں ہے نہ آتا ہے مجھ کو راس
کوئی خیالِ جبر لیے ہوۓ پھرتا ہوں
میں تو سوالِ جبر لیے ہوۓ پھرتا ہوں
تم سوز ہو کہ ساز، کوئی رنگ ہو کہ راز؟
تم جسم ہو کہ عکس، حقیقت ہو یا مجاز؟
تم لطف ہو ادا ہو حیا ہو کہ کوئی نور؟
تم اپسرا ہو دیوی ہو شہزادی ہو کہ حور؟
تم جاذب و جمیل ہو، دلکش کہ نازنیں؟
تم حسن ہو حسین ہو یا حسنِ آفریں؟
تم خواب ہو کہ نیند ہو، بستر ہو یا ردا؟
تم لمس ہو تپش ہو بدن ہو کہ ہو قبا؟
تم ناز ہو کہ طیش ، جنوں کوئی، یا فسوں؟
تم شور ہو، سکوت ہو، آلام یا سکوں؟
تم دھیان ہو، خلل ہو، ضرر ہو، شرر کہ بار؟
تم سچ ہو یا سراب، مرے پاس یا فرار؟
تم راہ ہو، سفر ہو، مسافت ہو یا قیام؟
تم در ہو، زر ہو، دار ہو، ٹھہراؤ یا خرام؟
تم دشت ہو دیوار ہو، تم ریت ہو کہ سنگ؟
تم جیت ہو شکست ہو، یا ہو نئی امنگ؟
تم باد ہو کہ یاد، تمنا ہو یا خیال؟
تم لے ہو، دھن ہو، تار ہو، سنگیت ہو کہ تال؟
تم عیش ہو کہ آس کوئی آہ یا گمان؟
تم اور ہی جہان ہو تم اور ہی بیان!!
میں اتنا جانتا ہوں کہ تم ہو مری امان
تم اور ہی جہان ہو تم اور ہی بیان!!

0
92