جو نگاہ اٹھتی ہے اس طرح مجھے آسماں پہ یقین ہے |
نہیں نکلا کام یقین سے سو اب اک گماں پہ یقین ہے |
مجھے آرزوؤں نے مات دی مجھے فیصلوں نے فنا کیا |
مگر ایک آس ہے آخری، مجھے رفتگاں پہ یقین ہے |
مجھے محترم ہے گلہ ترا مری گردشوں کو سمجھ ذرا |
مری داستاں پہ یقین کر، ترے آستاں پہ یقین ہے |
کسی چارہ ساز کی خار سے کسی غم گسار کی مار سے |
کسی عجلتوں کے شکار سے مجھے بے زباں پہ یقین ہے |
یوں ہے میرے ضبط کا دائرہ نہ امید کوئی نہ آسرا |
مگر ایک منزلِ بے نشاں، جسے امتحاں پہ یقین ہے |
نہیں سامنے مرے اب کوئی نہیں دیکھنا کسی سمت بھی |
کہ اب آرزو سے گریز ہے، دلِ بے دلاں پہ یقین ہے |
یہاں کوئی ٹال مٹول کیا یہ ہے گردشوں کا معاملہ |
یہ ہواۓ تیز سہی مگر ،مجھے بادباں پہ یقین ہے |
کسی زمز کا وہ تھکا ہوا کہیں راہ میں ہی بچھڑ گیا |
میں بھی خوگرِ سفرِ زیاں، جسے کارواں پہ یقین ہے |
تمہیں زیبؔ! لذتِ غم بجا مگر اک عجیب تضاد میں |
کبھی اس بیاں سے مکر گئے کبھی اس بیاں پہ یقین ہے |
معلومات