جاناں! |
تمہیں حسرت ہے کہ کوئی دشت سخن کا مسافر تمہیں لفظوں کی |
صورت کچھ گمان بخش دے مگر اسے یہ ڈر ہے کہ تم لفظوں میں کھو |
کر متاع حیات نہ کھو دو۔ یہ ایسا دشتِ سراب ہے جس کے وسط |
میں تم کھو سکتی ہو اور یہ بھی جان لو اس وسطی نرک کی کوئی رداس |
نہیں۔اے مرے دوست اس سراب میں الجھے ہوؤں کا کوئی ٹھکانہ |
نہیں ہے۔ پھر کیوں اس وبال کو سر لیا جاۓ۔ اے انجان آس! |
کیوں حیات کو کسی شوق کے شکنجے میں ڈال کر اسے تڑپتا دیکھا |
جاۓ۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے سکون بن جاؤںگر مجھے خود پر |
یقین نہیں۔ کیا تمہیں مجھ پر یقین ہے؟ |
معلومات