زندگی آس کے ٹھکانے پر
روٹھ جاتی رہی منانے پر
سوگواری تھی تیرے جانے پر
سوگواری تھی تیرے آنے پر
اپنے غم کی تپش میں اُکتا کر
تھوک دیتا ہوں میں زمانے پر
رات کٹتی گئی تمنا میں
اشک گرتے رہے سرہانے پر
آج اک بات تو بتائیے آپ
کیا ملا مجھ کو آزمانے پر؟
دن ڈھلا بے دلی میں اور شبِ غم
سو لیا آرزو کے شانے پر
اک عجب طرز سے ڈھلی ہے زیست
رہے مصروف خود کو ڈھانے پر
یہ بات الگ اب بھی غم ہے مگر
خوش نہ تھے تیرے آستانے پر
اب کہ ہر چند درد! درد نہیں
دل کو آرام ہے جلانے پر
زیبؔ امروز ہے غمِ فردا!
غمِ فردا ہے اک فسانے پر
دیکھیے زیبؔ! چھپ گئے ہیں نقش
دشت در دشت گرد کھانے پر

0
42