| فراق سہل کہاں، سوچ لو ذرا! کہ نہیں؟ |
| تمہیں یہ خوب پتا ہے اے دلربا کہ نہیں؟ |
| ہزار مجھ سے گریزاں تھے سوجھ بوجھ کے ساتھ |
| جنوں بہ دستِ جنوں ہوۓ مبتلا کہ نہیں؟ |
| خرد بہ دستِ خرد آرزو سے نا واقف |
| مگر میں نے تمہیں الجھا کے رکھ دیا کہ نہیں؟ |
| بجا کہ ٹھیک تھا وہ دورِ اجنبیت بھی |
| بجا کہ ٹھیک ہے یہ لطفِ جابجا! کہ نہیں؟ |
| کبھی ملاتے نہیں تھے نظر بھی تم پندار |
| یہ تار دل کا مگر مجھ سے جا ملا کہ نہیں؟ |
| وفورِ درد کہ بے طرح دل سے ہیں بیزار |
| بساط اس پہ یوں سینے میں رکھ لیا کہ نہیں؟ |
| یہ ممکنات سے آگے کی جنگ ہے اے زیبؔ |
| کہ زندگی سے لڑا جو بھی مر گیا کہ نہیں؟ |
معلومات