کتنے ہی حوصلے سے سہے غم خوشی خوشی
ضائع کیا ہے جذبوں کو پیہم خوشی خوشی
بس اک ترے بچھڑنے کا ڈر تھا، جو سہہ لیا
لو تیرے بعد جی رہے ہیں ہم خوشی خوشی
عشاق کی دلیر دلی، ان کا صبر دیکھ
سہہ جاتے ہیں فراق کے عالم خوشی خوشی
مطلوب، طالبِ دمِ تسکین مر گیا
تم تو مگر بنے رہے ظالم خوشی خوشی
پھر اس متاعِ شوق و وفا کے لحاظ میں
اے زیبؔ ہم ہیں درہم و برہم خوشی خوشی

74