ترکِ تعلقات پہ دل بے خبر ہے زیبؔ |
پھر اپنے پاس ایک یہی تو ہنر ہے زیبؔ |
کچھ تو لحاظ ہوتا مروت میں ہجر کا |
کتنا شدید ظلم تھا جو بے ضرر ہے زیبؔ |
کیسے عجب سراب میں الجھا ہوا ہوں میں |
منزل کوئی نہیں مری، پھر بھی سفر ہے زیبؔ |
رعنائیِ جہان سے وابستگی تو ٹھیک |
لیکن درونِ ذات تو تاریک تر ہے زیبؔ |
سب نے مکھوٹے پہنے ہیں ان زرد چہروں پر |
کس حال میں ہے حال یہ کس کو خبر ہے زیبؔ |
دفتر لگا ہوا ہے اداکاریوں کا یاں |
ہر شخص دل میں محوِ فریب و مکَر ہے زیبؔ |
رسمِ وداع کر کے یہ بھی جبر کر لیا |
میری نگاہ شوق کسی آس پر ہے زیبؔ |
گھڑیال بھی دیوار پہ ہنستا ہے دیکھ کر |
ہر سانس پر ہے ضرب بدن پر ضرر ہے زیبؔ |
میں جھنجلا کے بسترِ بوسیدہ پر گرا |
آسیبِ آرزوۓ ابد میرے سر ہے زیبؔ |
کس منہ سے پوچھیے دلِ ناکام سے سبب |
یہ کچھ نہیں ہے اپنا ہی پھیلایا شر ہے زیبؔ |
حالات و داستاں کے تغیر کی خیر ہو |
کس دل میں تم بسے ہو، کہاں سے گزر ہے زیبؔ |
یہ ماجراۓ شوق و جنوں کیا بتاؤں میں |
عقل و خرد بھی بے خبر و بے خطر ہے زیبؔ |
ملتے ہیں سب یہیں پہ یہیں پر بچھڑتے ہیں |
دشتِ ملال دشتِ جنوں کا سفر ہے زیبؔ |
معلومات