جب ترے لہجے میں تھوڑا سا تناؤ آیا
بس ذرا ٹیس اٹھی دل پہ دباؤ آیا
چن لیا ہے کسی آغوش کو آخر اس نے
اور دسمبر کے مہینے میں چناؤ آیا
میرے اطراف میں پھر سے ہے کوئی محوِ طواف
پھر کسی کوئے تمنا میں پڑاؤ آیا
کوئی شکوہ نہ تمنا نہ ہی جذبات رہے
مجھ میں بے طور سراپا یہ بہاؤ آیا
دشت درشت پھرے اور گرے تو یوں گرے
زندگی ویسی رہی اور نہ ٹکاؤ آیا
جانے یہ کیسی سہولت سے کیا سب کو وداع
اک مشقت سی اٹھا کے یہ سبھاؤ آیا
کوچۂِ یار بجز کوئے بلا کچھ بھی نہیں
زیبؔ اٹھ جایے ہر رنگ میں داؤ آیا

0
46