جب ترے لہجے میں تھوڑا سا تناؤ آیا |
بس ذرا ٹیس اٹھی دل پہ دباؤ آیا |
چن لیا ہے کسی آغوش کو آخر اس نے |
اور دسمبر کے مہینے میں چناؤ آیا |
میرے اطراف میں پھر سے ہے کوئی محوِ طواف |
پھر کسی کوئے تمنا میں پڑاؤ آیا |
کوئی شکوہ نہ تمنا نہ ہی جذبات رہے |
مجھ میں بے طور سراپا یہ بہاؤ آیا |
دشت درشت پھرے اور گرے تو یوں گرے |
زندگی ویسی رہی اور نہ ٹکاؤ آیا |
جانے یہ کیسی سہولت سے کیا سب کو وداع |
اک مشقت سی اٹھا کے یہ سبھاؤ آیا |
کوچۂِ یار بجز کوئے بلا کچھ بھی نہیں |
زیبؔ اٹھ جایے ہر رنگ میں داؤ آیا |
معلومات