جس کی تصویر سے ہر غم کو جھٹک جاؤں میں
پھر سے یوں ہو کسی لڑکی پہ اٹک جاؤں میں
کس کو معلوم ہے آتے ہوۓ لمحوں کی تپش
یہ بھی ممکن ہے کہ ہر اک کو کھٹک جاؤں میں
کیا پتا میرا بھی اور گردشِ ایام کا بھی
کب مکر جاؤں کھسک جاؤں سٹک جاؤں میں
یہ تعلق کا چھلاوا بھی عجب شے ٹھہری
یعنی تم وعدے کرو اور لٹک جاؤں میں
جان کر اپنوں کی وحشت سے مجھے کیا مقصود
آگہی سے کہیں بہتر ہے، بھٹک جاؤں میں

0
63