| جس کی تصویر سے ہر غم کو جھٹک جاؤں میں | 
| پھر سے یوں ہو کسی لڑکی پہ اٹک جاؤں میں | 
| کس کو معلوم ہے آتے ہوۓ لمحوں کی تپش | 
| یہ بھی ممکن ہے کہ ہر اک کو کھٹک جاؤں میں | 
| کیا پتا میرا بھی اور گردشِ ایام کا بھی | 
| کب مکر جاؤں کھسک جاؤں سٹک جاؤں میں | 
| یہ تعلق کا چھلاوا بھی عجب شے ٹھہری | 
| یعنی تم وعدے کرو اور لٹک جاؤں میں | 
| جان کر اپنوں کی وحشت سے مجھے کیا مقصود | 
| آگہی سے کہیں بہتر ہے، بھٹک جاؤں میں | 
 
    
معلومات