| اب وہ مقامِ خطر ہے یہاں کہ ہر اک لمحہ طوفانی ہے |
| وصل مروت چاہے اور بچھڑنے میں جاں جانی ہے |
| کوئی فراغت تھی ہمیں یا مجذوبِ شوق و جنوں تھے ہم |
| طرزِ جبر تو دیکھیے جو کہی بات اس نے بے جا مانی ہے |
| دن ہو کہ شب ہو ہم ویسے بھی بد مستِ خو رہتے ہیں |
| ایسی وحشت طاری کر کے مثال کوئی نئی لانی ہے |
| وقت کی لہر کو سمجھیے آپ وہ وقت زیادہ دور نہیں |
| یاد بھی کوئی یاد سی بن کے دل میں کہیں بہہ جانی ہے |
| لاکھ گزرتا جاۓ ڈھلتا جاۓ رقم کیا ہونا مگر |
| یعنی بربادی اس وقت کی ہم جیسوں نے ٹھانی ہے |
| اور تو کچھ مقصود نہیں دانائی میں اپنی لیکن |
| اس کو یاد کیے جانے کا مطلب نیند گنوانی ہے |
| دل کمبخت کہیں کا حد سے گزر گیا اپنی مستی میں |
| ذہن! جو جذبوں سے شرمندہ ہو کر پانی پانی ہے |
معلومات