زندگی کٹ رہی ہے ایسی پریشانی میں |
کوئی حیرانی نہیں ہے کسی حیرانی میں |
فیصلے ضبط کے آگے ہوۓ کتنے لاچار |
ہم کہاں آ کے رکے جبرِ پشیمانی میں |
کتنے لمحات ہوۓ سوزِ تحیر میں بھسم |
بھاگ کر جائیں کہاں صورتِ لافانی میں |
گو کہ یہ آخرِ دم اپنے کیے پر ہے زلیل |
دل کو بھی کتنا مزہ ملتا ہے شیطانی میں |
یہ نہ ہو میں ہی اتر آؤں کسی آئی پر |
گر بچھڑنا ہے، بچھڑ جایے آسانی میں |
ایک مدت سے مرے دل میں ہو! یعنی تم نے |
کس قدر شور مچا رکھا ہے ویرانی میں |
ہاں تو پھر اہلِ خرد کو یہ گوارا ہے زیبؔ؟ |
عشق لافانی ہوا عہدِ کوئے فانی میں |
معلومات