زندگی کٹ رہی ہے ایسی پریشانی میں
کوئی حیرانی نہیں ہے کسی حیرانی میں
فیصلے ضبط کے آگے ہوۓ کتنے لاچار
ہم کہاں آ کے رکے جبرِ پشیمانی میں
کتنے لمحات ہوۓ سوزِ تحیر میں بھسم
بھاگ کر جائیں کہاں صورتِ لافانی میں
گو کہ یہ آخرِ دم اپنے کیے پر ہے زلیل
دل کو بھی کتنا مزہ ملتا ہے شیطانی میں
یہ نہ ہو میں ہی اتر آؤں کسی آئی پر
گر بچھڑنا ہے، بچھڑ جایے آسانی میں
ایک مدت سے مرے دل میں ہو! یعنی تم نے
کس قدر شور مچا رکھا ہے ویرانی میں
ہاں تو پھر اہلِ خرد کو یہ گوارا ہے زیبؔ؟
عشق لافانی ہوا عہدِ کوئے فانی میں

0
218