| ہو دسترس میں اگر میری تو ستاؤ بھی |
| فقط ہنسانا ہی کافی نہیں رلاؤ بھی |
| میں ایک عمر رہا ہوں ریاضتِ غم میں |
| لطیف ہیں مجھے دکھ، دلربا ہیں گھاؤ بھی |
| یونہی یہ تن کے کھڑے رہنا کیسی عادت ہے |
| یہ ہاتھ جو ہیں، ملانے کو ہیں، ملاؤ بھی |
| جو میرے ساتھ رہی لڑکیاں وہ کہتی ہیں |
| عجیب شخص ہوں میں، ہے الگ سبھاؤ بھی |
| بہت ہی تنگ ہو کے جو نبھاہ کرتی ہو |
| اگر ہے یہ ترا احسان تو جتاؤ بھی |
| میں بوکھلا کے، کبھی چڑ کے کہتا ہوں خود سے |
| ہے نفسیاتی تناؤ، دلی لگاؤ بھی |
| میں آرزو سے نہیں تنگ پر ترے دل میں |
| بہت فریب تھا مشکل رہا پڑاؤ بھی |
معلومات