نہ دل و دماغ پہ زور کچھ نہ خرد کے پاس فرار ہے
کہ قفس قفس میں ہے اک بلا، جو نفَس نفَس پہ سوار ہے
یہاں ایک روز کی بات کیا، جو نہ درد ہو تو حیات کیا
میں وہی ہوں خامئ بے کساں جسے خلوتوں میں قرار ہے
وہی مستقل کے سے حال میں کہیں کھو گیا ہے فراق بھی
نہ ہے آرزو دلِ زار میں، نہ وہ عادتیں نہ وچار ہے
نظر آۓ دور سے آس اگر، تو سراب جاننا تم مگر
یہاں آس آس پہ وار ہے، یہاں سمت سمت غبار ہے
جو چلے ہو جانبِ شوق تم تو یہی ہے بود نبود بھی
کہ رہے وہ دشت میں کب تلک جسے عجلتوں کا بخار ہے
وہ نصیحتیں وہ گزارشیں کسے یاد آتی ہیں رات بھر
یہی ہیر پھیر ہے وقت کی یہی چھل کا دار و مدار ہے
شبِ ہجر زیبؔ گزار لوں، میں بھی چاہتا ہوں قرار لوں
مگر اک دلِ شبِ آرزو مرے سامنے کی دیوار ہے

0
37