آدمی، جو ہاؤ ہو میں ڈھل گیا
دل بنا، پھر آرزو میں ڈھل گیا
معرکہ تھا وصل کا کیسا عجیب
سرد موسم گرم لُو میں ڈھل گیا
رشتہ جو عجلت پسندی میں بنا
منظرِ آبِ لہو میں ڈھل گیا
بہہ رہا تھا آنسو میری آنکھ سے
بہتے بہتے آبِ جُو میں ڈھل گیا
کرتا ہوں باتیں میں اپنے آپ سے
ہجر تیرا گفتگو میں ڈھل گیا

0
99