Circle Image

سید گلزار عاصم

@gulzarasim5@gmail.com

یہ جو پلکوں پہ لرزتی ہے ندامت کیا ہے
یوں بکھرتے ہو سرِ شام یہ عادت کیا ہے
نید آتی نہیں ہونٹوں سے ہنسی چھن گئی ہے
حالِ دل میرا سمجھتے ہو، کرامت کیا ہے
تم جو ہر بات میں ٹھہراتے ہو خود کو بے قصور
پھر یہ پل پل کی شکایت، یہ عدالت کیا ہے

0
2
تُو ہی ہے رحمان تُو ہی ہے یا رب العالمین
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
تیری رحمت سے ہی قائم ہے نظامِ زندگی
تیری بخشش کے سہارے ہے سکونِ دل نشین
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم گنہگاروں کو بھی اپنے کرم سے دے اماں

0
4
ظلم سہنے سے بہتر ہے بغاوت کیجیے
سر جھکانے سے تو اچھا ہے شہادت کیجیے
کب تلک سہتے رہیں ظلم و ستم چپ رہ کر
آپ اٹھیں تو سہی ٹکرانے کی ہمّت کیجیے
چھپے لفظوں سے ملے گا نہ سکوں کا سایہ
جو بھی کہنا ہے، کھلے عام ہی جرات کیجیے

0
9
یادوں کو بھلانے کی تمنا نہ کریں گے
جو پھول بکھر جائیں، وہ تازہ نہ کریں گے
جو لوگ غلامی کے اندھیروں میں پلے ہوں
وہ لوگ اُجالوں کا تقاضا نہ کریں گے
یہ اشک تو دریا کے کنارے پہ کھڑے ہیں
ڈوبیں گے مگر شور شرابہ نہ کریں گے

0
4
بس تری چاہ میں ہاروں خود کو
کیسے چاہت میں بگاڑوں خود کو
خواب الجھے ہیں مرے ہاتھوں میں
کس طرح ان سے گزاروں خود کو
میرے جذبوں کی حقیقت کیا ہے
کیسے لفظوں میں اُتاروں خود کو

0
5
میں تو سایہ ہوں ترا ساتھ نبھا جاؤں گا
میں جو بچھڑا بھی اگر لوٹ کے آ جاؤں گا
تیری الفت کی قسم ٹوٹ کے چاہوں گا تجھے
سانسوں میں خوشبو کی مانند سما جاؤں گا
میرے ہونے کا یہ احساس رہے گا تجھ کو
خواب بن کر تری پلکوں کو سجا جاؤں گا

0
9
نبی پہ جب میں درود و سلام کرتا ہوں
میں اہل بیت کی حجت تمام کرتا ہوں
درود پڑھ کے جو حاصل سکون ہوتا ہے
دل و نظر کو مدینے کے نام کرتا ہوں
دیا جلا کے محمد کے نام کا دل میں
میں دل میں روشنی کا اہتمام کرتا ہوں

0
9
حق جان کے بھی حق سے مکر کیسے گئے ہیں
باطل کے اشاروں پہ ٹھہر کیسے گئے ہیں
حق دیکھنے والوں کی نظر کیسے یہ بدلی
باطل سے نہ ڈرتے تھے وہ ڈر کیسے گئے ہیں
بیچے ہیں ضمیر اپنے زر و مال کی خاطر
کچھ لوگ غلاظت میں ہی گر کیسے گئے ہیں

0
4
آپ کے در پر جھکے ہیں انبیاء، یامصطفیٰ
آپ ہی ہیں نورِ حق کی انتہا، یامصطفیٰ
آپ سا کوئی نہیں ہے رہنما، یامصطفیٰ
نام ہے رحمت کا سایہ، مرحبا، یامصطفیٰ
آپ کے قدموں کی مٹی چاند سے روشن رہی
یہ جہاں کی روشنی سحر و صبا ، یامصطفیٰ

0
10
جب مدینے کی فضا دل میں اُتر جائے یہاں
زندگی پھولوں کی مانند نکھر جائے یہاں
کون کہتا ہے مقدّر نہیں جاگے گا مرا
در پہ پہنچوں تو نصیب اپنا سنور جائے یہاں
دھوپ میں جیسے گھنے سایے کی راحت دل کو
نامِ سرکار کا اک حرف ٹھہر جائے یہاں

0
6
کس وجہ سے بچھڑے تھے وجوہات نہ پوچھو
لمبی ہے کہانی یہ سوالات نہ پوچھو
سب رنگ ہی بکھر گئے ہیں تیرے بغیر اب
کیسی ہے مری شام، مری رات نہ پوچھو
جلتے ہوئے صحرا میں بھٹکتے ہوئے دل کو
کیوں سایۂ راحت نہ ملا، بات نہ پوچھو

0
10
یادوں میں پڑا رہنا کچھ اچھا نہیں لگتا
شعلوں میں گھِرا رہنا کچھ اچھا نہیں لگتا
ہر شخص سے ڈرنا بھی، ہر بات پہ گھبرانا
سایوں میں چھپا رہنا کچھ اچھا نہیں لگتا
برسات کی ہوں راتیں خاموش فضا ہو جب
ایسے میں خفا رہنا کچھ اچھا نہیں لگتا

0
11
میری روشنی ہے تو، میری چاندنی ہے تو
دھوپ میں گھنا سایا، نرم تازگی ہے تو
بے قرار لمحوں میں ، بھیگی بھیگی راتوں میں
میری ہر خوشی میں بھی نرم سی خوشی ہے تو
چاہتوں کے صحرا میں بوند بوند برسا ہوں
میری پیاس کا موسم، تشنہ آگہی ہے تو

0
10
جتنا بھی میں نے چاہا، وہ اتنا نہیں کہیں
دل میں تری جدائی کا صدمہ نہیں کہیں
بادل کبھی بھی آنکھ سے برسا نہیں کہیں
تارا کوئی اُمید کا ٹوٹا نہیں کہیں
اک خواب تیرے وصل کا پلکوں پہ سج گیا
پر دل کی سرزمیں پہ وہ اترا نہیں کہیں

0
8
میں تو "انزلنا" فرمایا گیا ہوں
دعا کا حرف پڑھایا گیا ہوں
کہیں پر خواب تھا، تعبیر تھی میں
کہیں بکھرا، کہیں پایا گیا ہوں
سوالوں میں رہا صدیوں تلک میں
کبھی چُپ تھا، کبھی گایا گیا ہوں

0
6
آہ بن جائے گی آواز رُلا جائے گا وہ
میری غزلیں جو شبِ ہجر میں گائے گا وہ
میں جو بکھرا تو سمیٹے گا مجھے شام کے بعد
یا سرِ شام مجھے چھوڑ کے گھر جائے گا وہ
آج بھی خواب میں خوشبو کی طرح آیا تھا
کل بھی احساس کی صورت مجھے تڑپائے گا وہ

0
6
لگتا ہے جرمِ بغاوت میں کوئی سر جائے گا
نکلے گا لشکر جو کوفہ سے کوئی حُر جائے گا
دیکھ لینا ایک دن مزدور میرے شہر کا
تنگ آکر احتجاجاً بھوک سے مر جائے گا
بے سہاروں کی یہ دنیا، بے کسی کی بستیاں
زندگی کا بوجھ کب تک یہ اٹھا کر جائے گا

0
15
مجھے لے چلو کہیں تم ، جہاں پہ کوئی نہ ہو
ضروری تو نہیں ہے آسماں پہ کوئی نہ ہو
یہی ہے شرط مسافت کی، راہ میں میری
نشانِ نقشِ پا، کارواں پہ کوئی نہ ہو
گھٹا کے ساتھ چمکتی تھی بجلیاں بھی بہت
میں چاہتا ہوں سکوں کہکشاں پہ کوئی نہ ہو

0
14
ہم نے دیکھے ہیں کئی خواب جو مر جاتے ہیں
چند پل جیت کے، مٹی میں اُتر جاتے ہیں
چاندنی رات میں امید سجاتے کیوں ہو؟
یہ دیے ہیں جو ہوا دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
غم وہ دریا ہے، جسے پار اترنا مشکل
لوگ کشتی بھی جلا دیتے ہیں، تر جاتے ہیں

0
6
خدا کرے کہ تجھے وقت کی سزا نہ لگے
یہ درد ایسا ہے جس کو کوئی دوا نہ لگے
میں تیرگی میں رکھوں گا چراغِ ہجر جلا
کہ تیری یاد کو موسم کبھی خفا نہ لگے
ترے بغیر یہ دنیا بھی ایک صحرا ہے
مسافتوں میں کوئی نقشِ کفِ پا نہ لگے

0
14
افلاک کے دامن میں بھی گوہر نہیں ملتا
سایا بھی یہاں دھوپ میں اکثر نہیں ملتا
جل تھل میں چمکتا ہے سرابوں کی طرح جو
وہ عکس بھی پانی میں، برابر نہیں ملتا
راہوں میں چراغوں کی ضرورت ہے مسافر
خود کو ہی جلا کر تو مقدر نہیں ملتا

0
5
چشمِ تر میں ہیں کئی درد کے نالے، چپ ہیں
لب پہ آئے تھے کئی راز کہ تالے چپ ہیں
خواب سب رات کے آنچل میں تھے باندھے میں نے
کر کے ہر خواب وہ آنکھوں کے حوالے چپ ہیں
وقت کی دھوپ میں سائے بھی مٹے جاتے ہیں
جتنے تھے ساتھ وہ سب پاؤں کے چھالے چپ ہیں

0
13
بچھڑا ہے تو آنکھوں سے، نکلتا بھی نہیں ہے
یہ درد کوئی خواب، بدلتا بھی نہیں ہے
اک عمر ہوئی دل کو ، تسلّی نہیں ہوتی
وہ زخم کہ جو وقت، کھرچتا بھی نہیں ہے
ہر شخص حقیقت میں، شناسا بھی نہیں ہے
ہر چہرہ تو آئینے میں، دکھتا بھی نہیں ہے

0
15
یہی دل ہے، یہی دل کی لگی ہے
کہ جس میں تیری خوشبو جا بسی ہے
مسافت کب کسی سے کم ہوئی ہے
یہی راہیں ہیں منزل بھی، وہی ہے
تری یادوں کا موسم چل پڑا ہے
ہواؤں میں عجب سی بے کلی ہے

0
16
تیری سانسوں میں ڈھونڈ لوں خوشبو
اپنے ہونے کا راز پا جاؤں
تیری آنکھوں میں دیکھ کر دنیا
زندگی کو سمجھنے آ جاؤں
تیری زلفوں کے سائے میں بیٹھوں
چاندنی رات یوں گزار دوں میں

0
19
جو کہا تھا میں نے خیال میں، وہ سمجھ سکا کوئی اور ہے
وہ قریب تھا مرے دل کے، پاس مگر رہا کوئی اور ہے
میں چراغ تھا کسی شام کا، مجھے ایک جھونکے بجھا دیا
مرے بعد رات کے ہاتھ میں، جو جلا رہا کوئی اور ہے
یہ جو غم کی دھند میں قید ہوں، یہ کسی کی یاد کا جال ہے
جو سکون دل کو نصیب ہو، وہ عطا ہوا کوئی اور ہے

0
17
نئے سوال اُٹھا، پر جواب رہنے دے
نہ کر شمار یہ راتوں کے خواب رہنے دے
یہ وقت تھم بھی گیا، تو گزر ہی جائے گا
اداس لمحوں کو تو ہم رکاب رہنے دے
خطا کے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں میرے خدا
مجھے توں بخش دے مولا، حساب رہنے دے

0
13
غم تیرے سوا دل میں، ٹھہرتا بھی نہیں ہے
یہ زخم کوئی ہے، جو کہ بھرتا بھی نہیں ہے
کرتے ہیں وفاؤں کا، جو دعویٰ ہمیشہ
ایسا کوئی ملتا ، جو مکرّتا بھی نہیں ہے
دنیا کی طلب کیسی؟ یہ دل بھی ہے عجوبہ
خوشیوں پہ وہ ہنستا ہے ،جو روتا بھی نہیں ہے

0
8
محمد نفسِ زکیہ کے چرچے ہیں جہاں بھر میں
نشانِ صبر و تقویٰ ہیں یہ باغِ آلِ حیدر میں
چراغِ حق جلے جس سے، وہی کردار ہیں ان کا
عدالت کا سبق ہر دم رہے گا مکتب و در میں
یہ آلِ مصطفیٰ کی شان کے روشن ستارے ہیں
چراغِ دین روشن ہیں شبِ ظلمت کے منظر میں

0
10
چمکتی رات کے پہلو میں خواب رکھتا ہوں
ہزار زخم بھی سہنے کی تاب رکھتا ہوں
ہوا کے رخ پہ بناؤں میں روشنی کا محل
مسافتوں میں چراغِ گلاب رکھتا ہوں
تمہاری یاد کے موسم عجیب ہوتے ہیں
میں دل کی تہہ میں چراغِ سراب رکھتا ہوں

0
11
ہر پھول کی مہک میں ترا ہی جمال ہے
سبزے کی ہر کرن میں تو تیرا کمال ہے
تُو نے دیا ہے ہم کو زمیں اور آسماں
ہر سمت روشنی میں ترا ہی جلال ہے
دنیا کے رنگ و بو میں ہیں تیری نشانیاں
ہر چیز میں عیاں ہے ، ترا ہی کمال ہے

0
8
خواب سہما ذرا ڈرا ہوا تھا
وقت کا کارواں رکا ہوا تھا
شام گہری تھی اور ستارے گم
چاند بھی آج کچھ جھکا ہوا تھا
آنکھ روئی تو دل تڑپنے لگا
دور کوئی کہیں گیا ہوا تھا

0
13
ترے ذکر سے گل مہکنے لگے ہیں
پرندے ہوا میں چہکنے لگے ہیں
یہ ندیاں یہ جنگل یہ دریا کنارے
کہ پربت سے جھرنے بھی گرنے لگے ہیں
ستارے سبھی جھک گئے ہیں زمیں پر
ترا ماتھا ، رخسار چھونے لگے ہیں

0
3
21
اب لوگ بدل جاتے ہیں دو گام سے پہلے
آتی ہے دعا لب پہ ترے نام سے پہلے
دھوکے کی یہ دنیا ہے، یہاں دیکھ کے چلنا
کٹے ہیں کئی سر یہاں الزام سے پہلے
آنکھوں میں چھپائے ہیں کئی اشک کے دریا
برسیں گے یہ بادل کسی دن شام سے پہلے

2
18
پلکوں پہ تارے سجاؤ دسمبر کی رات ہے
جی بھر کے خوشیاں مناؤ دسمبر کی رات ہے
کتنی شدید سردی ہے، پھر آج جانِ جاں
گردش میں جام لاؤ ، دسمبر کی رات ہے
جذبات پھر مچل رہے ہیں بھیگی رات میں
اب تو قریب آؤ دسمبر کی رات ہے

0
9
جانِ جاں
جب سورج کی پہلی کرن
طلوع سحر کی تازہ ہوا میں
تمہارے ماتھے کو چومے
اور رخساروں کو چھیڑ کر
تمہیں جگا جائے،

13
کائناتِ حسن میں پنہاں ہے نامِ فاطمہ
نورِ ایماں محورِ دیں ہے نظامِ فاطمہ
نور حق کے عکس سے روشن کلامِ فاطمہ
ہے ہدایت کا امیں اور احترامِ فاطمہ
پیکرِ صبر و رضا، مہر و وفا کی روشنی
تا قیامت ہے درخشاں صبح و شامِ فاطمہ

5
یہ جہاں ظلم کا جنگل ہے، عدالت بے کار
ہر طرف خوف کا عالم ہے، صداقت بے کار
جیت جاتی ہے ہمیشہ ہی غرض کی مٹھی
اب تو کمزور کی آواز، شکایت بے کار
چند سِکوں پہ بِکے لوگ، بے حس و بے ضمیر
حق کی میزان پہ رکھی ہوئی قیمت بے کار

0
6
محبت کی گہرائیوں میں
جہاں لفظ خاموش ہو جاتے ہیں
اور سانسیں داستان بن جاتی ہیں
ایک لمس، ایک نظر
دل کی دھڑکنوں کا راز کھولتی ہے
چاندنی رات کے سائے میں

0
8
تیرے گاؤں میں ہوں شاید رابطہ ہو جائے گا
ملنے   کا پھر سے دوبارا سلسلہ ہو جائے گا
ہاتھ پر ہی ہاتھ رکھ کے بیٹھنا اچھا نہیں
بے وقوفی ہے گماں کے معجزہ ہو جائے گا
تیرے بھی اطوار بدلے بدلے سے ہیں آج کل
کوئی سچ جو بات کہہ دی تو گلہ ہو جائے گا

0
6
جلتا رہا ہوں دھوپ میں سائے کی دعا دو
صحرا کی طرح ہوں، مجھے بادل کی ردا دو
میں گم ہوں اندھیروں میں کوئی راہ سُجا دو
خوابوں کے نگر میں کوئی جگنو ہی جلا دو
بکھرے ہوئے لمحوں کو سمیٹا نہیں میں نے
گزرے ہوئے کل کا کوئی منظر ہی دکھا دو

0
4
دریا کی تہہ میں چاند اتارے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے کتنے راز سنوارے ہوئے ہیں ہم
بادل کی اوٹ سے جو چمکتی ہے روشنی
آنکھوں میں اس کا عکس سجائے ہوئے ہیں ہم
ہر سمت رنگ و نور کی بارش کا ہے سماں
یادوں کا ایک دیپ جلائے ہوئے ہیں ہم

0
3
اس محبت کے نام جس کا کبھی اظہار نہ ہو سکا
یہ دن، یہ لمحہ
جو آج کے سورج کی روشنی میں جگمگا رہا ہے،
تمہارے وجود کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔
یہ وقت، جیسے وقت کا پہلا قدم
تمہارے لیے، صرف تمہارے لیے۔

0
6
یہ لفظوں کی خوشبو بکھرتی رہے گی
کہانی محبت کی چلتی رہے گی
جو دل کے جزیرے پہ اترے گی چاہت
تو خوابوں کی دنیا مہکتی رہے گی
نگاہوں میں جلتے رہیں گے ستارے
تری خوشبو سے رات ڈھلتی رہے گی

0
12
تم پھر نہ مل سکو گے، بتانا تو تھا مجھے
تو بے وفا ہو جائے گا پتا تو تھا مجھے
تقدیر کھیلتی ہے زمانے کے ساتھ یوں
وہ شخص گم گیا ہے جو اپنا تو تھا مجھے
یادوں کی بارشوں نے جلایا ہے جس طرح
اس گھر کو آگ سے بھی بچانا تو تھا مجھے

0
12
قاتل بھی تو پیروں کے نشاں چھوڑ گیا ہے
پہچان ہو ممکن یہ گماں چھوڑ گیا ہے
جینے کی تپش دل میں جلا کر وہ ستمگر
احساس کی دنیا میں کہاں چھوڑ گیا ہے
تقدیر کے ہاتھوں میں کھلونا تھا ہمارا
جو کھیل میں ہارا، تو جہاں چھوڑ گیا ہے

0
23
عصرِ حاضر میں ہیں یزید بہت
کربلا پھر سے رونما ہو گا
جو حقائق چھپے تھے وقت کے ساتھ
ان سے پردہ بھی اب ہٹا ہو گا
سوچ سکتا نہیں تھا شہر ترا
کوفہ سے بڑھ کے بے وفا ہو گا

0
8
لب پر حسینؑ ابنِ علی کا سلامِ حق
دل میں چراغِ نور جلا ہے کلامِ حق
کرب و بلا کی ریت پہ جاری ہے روشنی
باطل کی ہر نمود پہ غالب نظامِ حق
پیاسے لبوں پہ ذکرِ خدا کی ہیں حکمتیں
حق کے لیے ہے ہر قدم اٹھا پیامِ حق

0
10
زندگی کو حیرت میں ڈال کر
موت کو پریشان کر گیا
لہو سے جلا کر چراغِ راہ
ظلمتوں کو حیران کر گیا
ہائے جانا ماجد کا اس طرح
شہر بھر کو سنسان کر گیا

0
7
مقتل سے آ رہی ہے اذاں کی صدا مجھے
پھر سے بلا رہا ہے کوئی کربلا مجھے
خیموں کی روشنی میں یہ کیسا سکوت ہے
حق کی صدا سنا گیا میرا خدا مجھے
زخموں سے چور چور مرا دل تھا بے قرار
شبیر کے عزا نے دیا حوصلہ مجھے

0
11
محبت کی گہرائیوں میں
جہاں لفظ خاموش ہو جاتے ہیں
اور سانسیں داستان بن جاتی ہیں
ایک لمس، ایک نظر
دل کی دھڑکنوں کا راز کھولتی ہے
چاندنی رات کے سائے میں

0
15
پلکوں پہ تارے سجاؤ دسمبر کی رات ہے
جی بھر کے خوشیاں مناؤ دسمبر کی رات ہے
کتنی شدید سردی ہے، پھر آج جانِ جاں
گردش میں جام لاؤ ، دسمبر کی رات ہے
جذبات پھر مچل رہے ہیں بھیگی رات میں
اب تو قریب آؤ دسمبر کی رات ہے

0
6
پھولوں کے ایک دیس میں خوشبو کے ساتھ ساتھ
تھوڑی سی دیر کے لیے آؤ وہاں چلیں
سر سبز و نرم لان کے، کونے میں بیٹھ کر
کچھ ہم سنائیں آپ کو، کچھ آپ کی سنیں
پربت میں چاندنی کا سفر تھم کے رہ گیا
اور وقت جیسے خواب کے دامن میں بہہ گیا

0
6
جانِ جاں
جب سورج کی پہلی کرن
طلوع سحر کی تازہ ہوا میں
تمہارے ماتھے کو چومے
اور رخساروں کو چھیڑ کر
تمہیں جگا جائے،

0
12
میری وحشت کو وہ اس طرح پزیرائی دے گا
عشق مجھ کو بھی زمانے میں یوں رسوائی دے گا
میری تنہائی کبھی بات کرے گی مجھ سے
دور صحرا میں کوئی ساز سنائی دے گا
ایک امید کے جگنو کو جلا کر رکھنا
راستہ چاند کی کرنوں سے دکھائی دے گا

0
6
جلتا رہا ہوں دھوپ میں سائے کی دعا دو
صحرا کی طرح ہوں، مجھے بادل کی ردا دو
میں گم ہوں اندھیروں میں کوئی راہ سُجا دو
خوابوں کے نگر میں کوئی جگنو سا جلا دو
بکھرے ہوئے لمحوں کو سمیٹا نہیں میں نے
گزرے ہوئے کل کا کوئی منظر ہی دکھا دو

0
5
کائناتِ حسن میں پنہاں ہے نامِ فاطمہ
نورِ ایماں محورِ دیں ہے نظامِ فاطمہ
نور حق کے عکس سے روشن کلامِ فاطمہ
ہے ہدایت کا امیں اور احترامِ فاطمہ
پیکرِ صبر و رضا، مہر و وفا کی روشنی
تا قیامت ہے درخشاں صبح و شامِ فاطمہ

0
9
اب لوگ بدل جاتے ہیں دو گام سے پہلے
آتی ہے دعا لب پہ ترے نام سے پہلے
دھوکے کی یہ دنیا ہے، یہاں دیکھ کے چلنا
کٹے ہیں کئی سر یہاں الزام سے پہلے
آنکھوں میں چھپائے ہیں کئی اشک کے دریا
برسیں گے یہ بادل کسی دن شام سے پہلے

0
10
پت جھڑ کے زخم دل پہ سجائے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے گل بہار میں لائے ہوئے ہیں ہم
بادل کی اوٹ سے کوئی جھانکے تو روشنی
آنکھوں میں اس کا عکس سجائے ہوئے ہیں ہم
صحرا میں ہے چراغ کی لو کا بسیرا آج
پھولوں کی خوشبو درد چھپائے ہوئے ہیں ہم

0
8
یہ کس کے غم نے ہمیں درد سے ملایا ہے
جہاں سے درد ملا دل وہیں پہ پایا ہے
نہ قرب مل سکا ہم کو، نہ دور رہ پائے
عجب فسانہ محبت کا یہ بنایا ہے
گزر رہے ہیں جہاں سے، وہاں بہاریں ہیں
کسی نے جھاڑے کے موسم میں گل کھلایا ہے

0
4
سرمئی شام سے شبنم سی سحر ہونے تک
تیری یادوں کی ضیا دل میں جلی رہتی ہے
یہ جو خوابوں کا تسلسل ہے، یہ احساسِ جمال
تجھ سے وابستہ ہر اک شے سے جِڑی رہتی ہے
میں نے سوچا تھا کہ ہر حال میں خوش ہی رہیں گے
پر مری آنکھوں میں ہلکی سی نمی رہتی ہے

0
8
یہ جہاں ظلم کا جنگل ہے، عدالت بے کار
ہر طرف خوف کا عالم ہے، صداقت بے کار
جیت جاتی ہے ہمیشہ ہی غرض کی مٹھی
اب تو کمزور کی آواز، شکایت بے کار
چند سِکوں پہ بِکے لوگ، بے حس و بے ضمیر
حق کی میزان پہ رکھی ہوئی قیمت بے کار

0
5
ہم جو نکلے سرِ صحرا تو یہ منظر دیکھا
ہر طرف خاک اڑی، درد کا پیکر دیکھا
جس کو سمجھا تھا محبت ،دل و جاں کی منزل
اس کو بھی خوف کی دیوار کے اندر دیکھا
زخم کھائے تو یہ احساس ہوا ہے ہم کو
زندگی کو کبھی ہنستے، کبھی رو کر دیکھا

0
5
جس کی تحریر مقدس ہے صحیفوں جیسی
جس کا ہر لفظ مری نظم کا عنوان بنا
جس کی زلفوں میں گھٹا دیکھ کہ بادل جھومے
جس کے ہونٹوں کی مہک چھو کے گلستان بنا
لب ہلائے تو شگوفوں کے بدن کھل جائیں
مسکرائے تو تبسم کاشرارہ پھوٹے

0
43
کیوں خوابوں کے جال بُنیں
اک مدت سے سوچ رہا ہوں
تم سے دل کی بات کہوں
اپنے پاس بٹھا کر تم کو
چاہت کا اظہار کروں
کاش کوئی ان سونے والے

31
صبر لازم ہے، مگر صبر کی حد ہوتی ہے
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
میں نے مانگا ہے تہجد کی نمازوں میں تجھے
خاص گھڑی مانگی دعا تو نہیں رد ہوتی ہے؟
میری ہر بات ہنسی میں اڑا دیتے ہیں سبھی
ان کی ہر بات مگر مثلِ سند ہوتی ہے

0
111
جس دل میں جاگزیں ہے محبت حسین کی
بے شک اسے نصیب ہے قربت حسین کی
وہ شمعِ ھدا وہ حق و صداقت کا آفتاب
عالم پہ ہے محیطِ امامت حسین کے
سر کو  سجا کے شوق سے نیزے کی نوک پر
شام و سحر کریں گے تلاوت حسین کی

0
67
ظلم کو ظلم کہیں بھی تو بُرا لگتا ہے
"دورِ حاضر میں تو جینا بھی سزا لگتا ہے"
اب تو موسیٰ بھی نہیں کس کو پکاریں مولا
بر سرِ تخت جو بیٹھا ہے خدا لگتا ہے
لشکرِ شام میں پھر ہو رہی ہے صف بندی
کربلا ہے مگر انداز نیا لگتا ہے

1
76
الجھنیں حل طلب ہے چھوڑ گیا
جانے کیوں بے سبب ہے چھوڑ گیا
جس کو میں دل و جاں سے چاہتا تھا
مجھ کو نا جانے کب ہے چھوڑ گیا
جس کی شدت سے اب ضرورت تھی
ہائے  کمبخت  کب  ہے چھوڑ گیا

94
ہر روز مجھ کو اک نئی تصویر چاہیے
تسکینِ دل  کے واسطے تحریر چاہیے
جو الف لام میم کے معنی بتا سکے
ایسے امام کی لکھی تفسیر چاہیے
نادِ علی ضروری ہے ہر فتح کے لیے
تقدیر ساتھ  بھی ہو تو تدبیر چاہیے

74
نہیں ہے واسطہ میرا کسی حقیقت سے
میں ایک خواب ہوں آنکھوں میں نا بساؤ مجھے
برائے نام ہے ہستی مری زمانے میں
تمہارے واسطے بہتر ہے بھول جاؤ مجھے

84
دل کی گہرائی میں سوچوں کو اترتے دیکھنا
ولولہ انگیز جذبوں کو ابھرتے دیکھنا
ابتدا سے ہی مرے منشور میں شامل نہیں
سر سے اوپر اس طرح پانی گذرتے دیکھنا
----------------------------------
خون دل سے لکھی تھیں جو غزلیں

77
کیسے بدلا ہے محبت کا جہاں سوچو ذرا
ہائے کیوں پیدا ہوا وہم و گماں سوچو ذرا
آپ کی خاطر بتاؤ کیا نہیں میں نے کیا
جانِ من ! جانِ تمنا ، جانِ جاں سوچو ذرا

84
لو روز روز کی بدنامیوں سے تنگ آ کر
ہمیشہ کیلئے گاؤں سے جا رہی ہوں میں
لکھے تھے پیار سے تونے مجھے جو خط عاصم
بڑے ہی دکھ سے انہیں اب جلا رہی ہوں میں
------------------------------------
آنکھوں آنکھوں میں بات ہوتی ہے

79
اتفاقاً وہ جب بھی ملتے ہیں
آرزؤں کے ہی پھول کھلتے ہیں
یاد آتے ہیں جب حسیں لمحے
اشک بے ساختہ نکلتے ہیں
——————————
ایک انجانے خوف سے عاصم

74
جب تو پہلی بار ملا تھا
دل میں پیار کا دیپ جلا تھا
آدمی رات کو ٹوٹ کے تارا
میرے گھر میں آن گرا تھا
ساری دنیا کو ٹھکرا کر
میں نے تم سے پیار کیا تھا

0
190
آج وہ پہلی بار ملا ہے خوش ہوکے
چاہت کا اظہار کیا ہے خوش ہو کے
دل کے ساتھ لگا کر گہرے زخموں کو
ہم نے غم کا زہر پیا ہے خوش ہو کے
لوگو آکر دیکھ لو اپنی آنکھوں سے
سولی پر منصور چڑھا ہے خوش ہوکے

0
84
ہر کلی مرجھا گئی ہے باغباں جانے کے بعد
جاں کے لالے پڑ گئے ہیں جان جاں جانے کے بعد
کون بتلائے گا اب مجھ کو صراطِ مستقیم
محسنِ اعظم ، امیرِ کارواں جانے کے بعد
روٹھنے والا یقیناً اس جگہ پر ہے گیا
لوٹ کر کوئی نہیں آتا جہاں جانے کے بعد

50
نفیس جذبے قدیم قصے نئی امنگیں تلاش کرنا
نئی ثقافت کے زاویوں سے جدید راہیں تلاش کرنا
جو زندگی کے اداس لمحوں کا جب بھی تم کو خیال آئے
تو شامِ غم کا چراغ لے کر ہماری غزلیں تلاش کرنا
اگر تصور کی وادیوں میں گلاب چاہت کے مسکرائیں
حسین یادیں لگا کے دل سے جوان راتیں تلاش کرنا

78
اک مدت سے سوچتا ہوں
تم سے دل کی بات کہوں
تم کو اپنے پاس بیٹھا کر
چاہت کا اظہار کروں
کاش کوئی ان سونے والے
جذبوں کو بیدار کرے

49
آپ نے یاد کیوں کیا ہے مجھے
خوب اچھی طرح پتا ہے مجھے
جانتا ہوں میں اس کی مجبوری
جس نے بیرنگ خط لکھا ہے مجھے
نہ کسی قسم کی شکائت ہے
نہ کسی قسم کا گلہ ہے مجھے

97
آگ دل میں جلا کے بیٹھے ہیں
غم ۔کو سینے لگا کے بیٹھے ہیں
دیکھ زندہ دلی فقیروں کی
اپنا تن من لٹا کے بیٹھے ہیں
جانے کیا ہو گئی خطا ہم سے
یار سب منہ بنا کے بیٹھے ہیں

76
سامنے رکھ کے تری تصویر کو
ڈھونڈتا ہوں خواب کی تعبیر کو
خشک ہونٹوں سے لگا کر بار بار
چومتا ہوں آپ کی تحریر کو
ہو گیا برباد بیلے کا سکوں
بانسری کیسے سناؤں ہیر کو

90
ہر طرف دھوم ہے بہاروں کی
عید آئی ہے غم گساروں کی
مسکرائی ہے رات کی رانی
سر پہ چادر لئے ستاروں کی
وحشتِ دل بتا کہاں جاؤں
باڑ ہے ارد گرد تاروں کی

74
دیکھتے دیکھتے جب وقت گذر جاۓ گا
سایہ دیوار سے گھبرا کے اتر جائے گا
کیا کبھی غور سے سوچا ہے تو اس بارے میں
دل پہ ٹوٹی جو قیامت تو کدھر جاۓ گا
جب مرے گھر میں کوئی بن کے بہار آۓ گی
میرا پھولوں کی طرح رنگ نکھر جائے گا

68
بے اختیار وقت سے ٹکرا گیا ہوں میں
گر کر زمیں پہ ہوش میں پھر آ گیا ہوں میں
جاں پر بنی تو ذہن بھی مفلوج ہو گیا
اک کشمکش میں مبتلا جب سے ہوا ہوں میں
آتا ہے کون سامنے طوفاں کی طـرح
جب بھی اڑان کے لئے پر تولتا ہوں میں

71
پہلے دل پر چوٹ کوئی کھائیے
پھر مرے نزدیک اتنا آیئے
آئے گی کھل کر حقیقت سامنے
ذہن میں عمرِ گذشتہ لائیے
جانے والے جانے سے پہلے ذرا
ایک میری بات سنتے جائیے

48
کھلے کھلے سے گلاب چہرے
کھلی کھلی سی کتاب چہرے
یقین جانو کہ محترم ہیں
عظیم عزت مآب چہرے
گزر گئے ہیں چرا کے نظریں
بدل گئے ہیں جناب چہرے

116
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو !
حسیں بیتے لمحوں کی لمبی کہانی
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو !
محبت کے موسم کی رت وہ سہانی
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو ۔
وہ دلکش نظارے وہ موسم سہانا

74
جب بھی گردش میں کوئی جام آیا
مرے ہونٹوں پہ تیرا نام آیا
کل جو رحمت کا اک فرشتہ تھا
آج وہ بھی نہ میرے کام آیا
ایک مدت کے بعد آج ان کا
دست بستہ ہے پھر سلام آیا

85
زندگانی کا وجود ایک دو پل ہو جیسے
کوئی با ضابطہ قانون اٹل ہو جیسے
ولولے حسن کی جدت کے ابھرآئے ہیں
نئی تہذیب و تمدن کی غزل ہو جیسے
زیست کو زیر و زبر دیکھ کے محسوس ہوا
پھیلنے اور سمٹنے کا عمل ہو جیسے

59
یار کے غم کو اپنا غم جانا
پیار کے دم سے دم میں دم جانا
زندگی کی حسین الجھن کو
تری زلفوں کا پیچ و خم جانا
وصل کی شب قلیل ہوتی ہے
اے سحر ! تھوڑی دیر تھم جانا

88
دل پریشان ہے چلے آؤ
آنکھ ویران ہے چلے آؤ
سونی سونی میں شہر کی گلیاں
رات سنسان ہے چلے آؤ
کوئی پتھر نہیں رہا باقی
راہ آسان ہے چلے آؤ

64
جس دل میں یقیں عدل و صداقت نہیں ہوتی
اس دل میں کبھی نورِ بصیرت نہیں ہوتی"
جس دیش میں انصاف کے پورے ہوں تقاضے
اس دیش میں خوں ریز بغاوت نہیں ہوتی
اک ٹھوس حقیقت ہے کہ لوگوں کے دلوں پر
طاقت کے دباؤ سے حکومت نہیں ہوتی

1
76
کس نے چھیڑا ہے غم کا افسانہ
درد سے بھر گیا ہے پیمانہ
کاش کوئی سنبھال کر رکھے
میرے معصوم دل کا نذرانہ
کھل گیا راز گہرے زخموں کا
بند جب سے ہوا ہے میخانہ

53
جس کے لئے جہان کو دشمن بنا لیا
اس نے بڑے خلوص سے دامن چھڑا لیا
تہہ دل کے ساتھ شکر یہ اس کا ادا کرو
روٹھی ہوئی بہار کو جس نے منا لیا
ہرگز کبھی نہ آؤں گا تیرے فریب میں
دھو کا جو جان بوجھ کے کھانا تھا کھالیا

90
کس کے گھر میں بہار آئی ہے
چاندنی رات مسکرائی ہے
پیار کے دل فریب وعدوں نے
زندگی خاک میں رلائی ہے
ہر طرف تم ہی تم نظر آئے
ہر طرف آپ کی دہائی ہے

107
دوستوں کا میں کوئی صلہ نہیں رکھتا
دشمنوں سے بھی کوئی گلا نہیں رکھتا
دل میں کسی کا جو احترام نہ رکھے
ایسے کسی سے میں رابطہ نہیں رکھتا
اس کو شکایت رہی  ہمیشہ ہی مجھ سے
پاس جو بیٹھوں تو  فاصلہ نہیں رکھتا

4
97
سنگدل کو دیوتا کیسے کہوں
ظلمتِ شب کو ضیا کیسے کہوں
رات دن یہ سوچتا رہتا ہوں میں
بے وفا کو با وفا کیسے کہوں
لوٹا ہے جن لوگوں نے میرا وطن
رہزنوں کو رہنما کیسے کہوں

80
وفا کے دیپ جِلاؤ بڑا اندھیرا ہے
خودی کو ہوش میں لاؤ بڑا اندھیرا ہے
فلک پہ کوئی بھی تارا نظر نہیں آتا
نقاب رخ سے اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ہمارے واسطے اتنی سزا ہی کافی ہے
ہمارا دل نہ دکھاؤ بڑا اندھیرا ہے

1
121
سنگدل کو دیوتا کیسے کہوں
ظلمتِ شب کو ضیا کیسے کہوں
رات دن یہ سوچتا رہتا ہوں میں
رہزنوں کو رہنما کیسے کہوں
،
جو کسی کی بات سن سکتا نہیں

95
یاد ہے اب تک وہ ماضی کی مکمل داستاں
وہ سہانی چاند راتیں وہ بہاروں کا سماں
یاد ہے اچھی طرح گذرا زمانہ آج بھی
یاد ہیں اب تک حسیں وعدے سبھی اے جان جاں
سوچا تھا کہ خواب کی تعبیر مجھ کو مل گئی
زندگی کے روپ میں تنویر مجھ کو مل گئی

0
141
دوست جب زہر پلانے آۓ
پھر مرے ہوش ٹھکانے آۓ
جل گیا آشیاں جب تنکوں کا
لوگ پھر آگ بجھانے آئے
ساتھ جب دوست نئے چھوڑ گئے
یاد پھر دوست پرانے آۓ

0
77
سلسلہ میری چاہتوں کا ہے
تتلیوں جیسی خواہشوں کا ہے
جب سے موسم خراب ہے دل کا
سلسلہ تب سے بارشوں کا ہے
مشکلوں میں گرا ہے میرا وطن
جا بجا  جال سازشوں کا ہے

0
106
خوشبو خوشبو ، اجلے اجلے ، گل رخ رنگ رنگیلے ہونٹ
قطره قطره شبنم شبنم سجل چھیل چھبیلے  ہونٹ
جی میں ہے کہ چوم لوں جا کر پاؤں میں اس جوگی کے
جس نے کالا منتر پڑھ کر ناگن جیسے کیلے ہونٹ
شائد کوئی بھنورہ بن کر باغ میں آنے والا ہے
سوہے جوڑے میں ملبوس ہیں لالہ زار سجیلے ہونٹ

1
146
سرخ آنچل کے ہواؤں میں اشارے دیکھے
چاک ہونٹوں پہ تبسم کے نظارے دیکھے
تو نے کل شام کو ملنے کی قسم کھائی تھی
جا سبھی جھوٹے ترے پیار کے لارے دیکھے
کس پے عمبر نے درختوں سے پنا مانگی ہے
وقت کے ہاتھ میں ہیں موت کے آرے دیکھے

126
حقیقت کو سمجھ سکتے نہیں جو لوگ جاہل ہیں
بتوں سے مانگنے والے مرادیں کتنے پاگل ہیں
طلاطم خیز موجوں میں سفینہ دیکھ کر میرا
به اندازِ تماشائی تبسم خیز ساحل ہیں
مری آنکھوں کے نیلے آسماں کو غور سے دیکھو
جہاں برسات ہی برسات ہے بادل ہی بادل ہیں

68
کیا خبر تھی دل میں یوں بس جاؤ گے
اس قدر نزدیک میرے آؤگے
دیکھ لینا اب نہ کو ئی بھول ہو
ورنہ ساری زندگی پچھتاؤ گے
خود بخود ہو جائے گا روشن دماغ
ٹھوکروں پر ٹھوکریں جب کھا ؤ گے

115
مانا کہ تیرے  پیار کے قابل نہیں ہوں میں
بے شک تری تلاش کا حاصل نہیں ہوں میں
ہر چند  تیری ذات سے کچھ اختلاف ہے
پھر بھی ترے خیال سے غافل نہیں ہوں میںں
تجدیدِ عہد بھی تو  دوبارا ہو سکتا ہے
ترکِ تعلقات کا  قائل نہیں ہوں میں

156
آپ کو اب قسم کی ضرورت نہیں
میں یقیں کرتا ہوں آپ کی بات پر
پہلو میں یار جو ہو اگر  جانِ جاں
کیسے رکھے گا قابو وہ جذبات پر
دشمنوں کی نظر  میں نہیں آنا ہے
ہر جگہ ہیں جو  بیٹھے ہوئے گات پر

75
خوف اک وہی رہتا ہے مرے  خیالوں میں
کو فیوں  سی عادت ہے تیرے شہر والوں میں
بے مثال ہے تُو سب حسن کے حوالوں میں
میر کی غزل غالب ، جوش، کی مثالوں میں
لفظوں میں جو شامل ہے زہر تیرے لہجے کا
    کاٹ رکھتی ہے تیری یہ زباں سوالوں میں

56
نادِ علی کے ورد نے جھکنے نہیں دیا
"کن فیکون" نے کبھی گرنے نہیں دیا
ہر طوفاں سے وہ ٹکرا بھی سکتا تھا مگر
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
ناکامیوں سے دل تو بہت ڈرتا تھا مگر
"والناس" کے وظیفے نے ڈرنے نہیں دیا

2
138
ان گِنت آسمان کے تارے رقیب ہیں
ساحل کے ساتھ ساتھ کنارے رقیب ہیں
کانٹا چبھا تو ایک دم احساس ہو گیا
موسم کے دل فریب نظارے رقیب ہیں
ہائے تمہارے شہر میں بھی اتفاق سے
کوئی نہیں ہے  خیر خواہ سارے رقیب ہیں

2
121
ایک مدت سے ہی میں حسرت ہے
تیری بانہوں میں ڈال کر بانہیں!
دل کے دریا میں غرق ہو جاؤں
تیرے پاؤں پہ رکھ کے سر اپنا
موت بن کر مزے سے سوجاؤں
ایک مدت سے ہی میں حسرت ہے

1
100
جس محبت کیلئے زہر پڑا تھا کھانا
کیا خبر تھی کہ اسے توڑ کے دل ہے جانا
لاکھ طوفان بھی آجائیں اگر راہوں میں
موت کے خوف کو خاطر میں کبھی نہ لانا
شک کی نظریں میں تعاقب میں بڑی مدت
آپ کا ٹھیک نہیں روز گلی میں آنا

58
زندگی کچھ اس طرح سے ہو گئی مصروفِ کار
کوئی بھی سنتا نہیں مظلوم کی چیخ و پکار
جن کے دم سے چل رہا ہے زندگی کا کاروبار
کب تلک ہوتے رہیں گے وہ تشدد کا شکار
حضرتِ انسان کی تذلیل ہو کر رہ گئی
ایکدم اخلاق سے گر کر ہوا مجرح و قار

70
پوچھ نہ کیسے ہوا، کیوں کر ہوا
ٹھیک ہے بس جو ہوا بہتر ہوا
اٰگ گئی سرسوں نظر کے سامنے
یہ تجربہ بھی ہتھیلی پر ہوا
میں نے جو چاہا تھا وہ نہ ہو سکا
جو نہ چاہا تھا وہی آخر ہوا

76
خواب  آنکھوں میں بسا  ہو جیسے
دشت  میں پھول کھلا  ہو جیسے
وہ پریشاں ہو تو یوں لگتا ہے
چاند کچھ بھول گیا ہو جیسے
اللہ حافظ بھی  کہا ہے اس نے
اک کیا  فرض ادا  ہو جیسے

88
"گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے"
جو چھوڑ کر چلے جائیں نہ لوٹ پائیں  گے
بہت سے راز ہیں  پوشیدہ جو  مرے فن کے
  مقالے تیرے  بیاں مجھ کو کر  نہ  پائیں گے
یہ زندگی تو  امانت سمجھ کے جی رہے ہیں
کسی بھی دن تری دہلیز  چھوڑ آئیں گے

0
114
خواب  آنکھوں میں بسا  ہو جیسے
دشت  میں پھول کھلا  ہو جیسے
وہ پریشاں ہو تو لگتا ہے یوں
چاند کچھ بھول گیا ہو جیسے
اللہ حافظ بھی  کہا ہے اس نے
آخری فرض ادا  ہو جیسے

0
66
یا علی، مجھ کو سخنور کر دے
شہرِ اماں کا گداگر کر دے
میں لکھوں نعت، قصیدے تیرے
لفظ کو نُور کا مظہر کر دے
بس تعلق ہے تری نسبت سے
میرے دل کو بھی منوّر کر دے

2
153
دل میں بن کے وہ  آس رہتا ہے
جو  مرے آس پاس رہتا ہے
آنکھیں تیری پریشاں ہیں جانم
دل تو میرا اداس رہتا ہے
تیرے مہ خانہ میں بھی اے ساقی
میرا  اک  غم  شناس رہتا ہے

0
84
دیکھتے دیکھتے موسم بھی نکھر جائے گا
ابر ٹھہرے گا نہ صحرا سے گزر جائے گا
دیکھتے دیکھتے جب وقت گزر جائے گا
سایہ دیوار سے گھبرا کے اتر جائے گا
کیا کبھی غور سے سوچا ہے تو اس بارے میں
دل پہ ٹوٹی جو قیامت تو کدھر جائے گا

87
"کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا"
حالات کے طوفاں سے گزر کر نہیں دیکھا
جس گھر کے لیے  ہم نے وطن چھوڑ دیا تھا
مدت ہوئی  ہے  لوٹ کہ وہ گھر نہیں دیکھا
کرتا ہے بڑے شوق سے اڑنے کا تقاضا
دل جیسا حسیں کوئی کبوتر نہیں دیکھا

0
121
پہلے کی طرح تم سے محبت تو اب بھی ہے
شاید تمہیں بھی میری ضرورت تو اب بھی ہے
دن بھر کا گھومنا ہے۔ تو  راتوں کا  جا گنا
خانہ بدوش یار کی عادت تو اب بھی ہے
پھر کیا ہوا کہ اب وہ شہنشاہ نہیں ہوں میں
چھوٹی سہی یہ گھر کی ریاست تو اب بھی ہے

0
66
غزل کہنے کی عادت ہو گئ ہے
مجھے شاید محبت ہو گئ ہے
اسے کل غور سے دیکھا تھا میں نے
نہائت  خوبصورت ہو گئی ہے
  چھپا کر اب کیا حاصل کرو گے
عیاں ساری حقیقت ہو گئی ہے

0
85
 جو رشتہ پیار کا حاصل نہیں ہے
سرا سر دید کے قابل نہیں ہے
چلو اپنے جہاں کو لوٹ جائیں
یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں ہے
تجھے کس بات کا ہے  خوف جاناں
کوئی جب  درمیاں  حائل نہیں ہے

0
65
آیت الکرسی لکھی ماں نے ہے جب سے   ماتھے پر
اب اندھیروں سے مجھے لگتا  نہیں ہے کوئی  ڈر
چیختی ہے خامشی گھر کی یہ حالت دیکھ کر
اب پرندے بھی نہیں آتے کسی دیوار پر
روز یادوں کے گھنے جنگل میں پاگل کی طرح
درد کے جگنوں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات بھر

0
106
اللہ کے ولی  سے جو محبت نہیں کرتے
ہر گز وہ ادا حقِ ولایت نہیں کرتے
ہم لوگ حسینی ہیں  یہ شیوہ ہے   ہمارا
ہم  فاسق و فاجر کی اطاعت نہیں کرتے
ہم مالکِ  دیں ہیں تو حفاظت بھی کریں گے
بے وجہہ کسی سے بھی عداوت نہیں کرتے

0
84
شادی کی رسومات کی زنجیر مبارک
تجھ کو ترے ہر خواب کی تعبیر مبارک
رہنے دو مرے پاس مقدر کی سیاہی
وہ وقت کا رانجھا ہے اسے ہیر مبارک

0
92
پھولوں کے ایک دیس میں خوشبو کے ساتھ ساتھ
تھوڑی سی دیر کے لیے آؤ وہاں چلیں
سر سبز و نرم لان کے، کونے میں بیٹھ کر
کچھ ہم سنائیں آپ کو، کچھ آپ کی سنیں
پربت میں چاندنی کا سفر تھم کے رہ گیا
اور وقت جیسے خواب کے دامن میں بہہ گیا

0
102
بھولنا چاہتا تھا جنہیں  عمر بھر
یاد   آتے ہیں رہ رہ کہ شام و سحر
جگنو میں اور یہ میرا آوارہ پن
رات بھر  پھرتے ہیں اجنبی  راہوں  پر
اب کہ میں ایسی بستی میں آ چکا ہوں
بات جس سے کروں وہ ہو جائے پتھر

47
خدا  کرے کہ  کوئی بھی بُری خبر نہ ملے
مرا کوئی بھی  رقیبوں سے  نامہ بر نہ ملے
اداس لوگ تھے چہرے وہ آنکھیں بھی نم تھیں
جو لوگ پھر کبھی  بھی راہِ ہمسفر نہ ملے
یہ گھر کیا   ہوا  تقسیم فرد  بھی  ہو گئے
کہ  ساتھ ساتھ وہ رہتے  بھی عمر بھر نہ ملے

0
49
کاش پہلو سے کوئی چاند نکلتا دیکھوں
دل کے آنگن میں کوئی پھول مہکتا دیکھوں
عین اس وقت سبھی زخم ہرے ہوتے ہیں
خشک ٹہنی پہ کوئی جب میں پپیہا دیکھوں
طوطے اڑ جاتے ہیں اس وقت مرے ہاتھوں کے
کونج کو ڈار سے جس وقت بچھڑتا دیکھوں

0
70
عشق صوفیانہ ہے
حسن شاعرانہ ہے
تیرے شہر کا موسم
تو بہت سہانا ہے
کام سے نہیں  فرصت
یہ تو اک بہانا ہے

0
75
ملنے کی اب کہاں فرصت ہو گی
فون ہی کر لو عنایت  ہوگی
ہر محبت پہ یوں لگتا ہے مجھے
آخری اب  یہ محبت ہو گی
جب کھڑے ہوں گے خیالِ بتاں میں
تیری پھر خاک عبادت ہو گی

0
113
مر حبا صد آفریں میرے حضور
رحمتَ اللعالمیں میرے حضور
سرورِ دیں مالکِ ارض و سماں
زینتَِ عرشِ بریں میرے حضور
محسنَِ اعظم  حبیبِ کبریا
پیکرِ صدق و یقیں میرے حضور

0
99
میرے الفاظ میں اثر رکھ دے
دل کی دنیا اجھال کر رکھ دے
روشنی کی  کرن کہیں پھوٹے
قید خانے میں کوئی در  رکھ دے
سچ اگر بولنے کی ہمت ہے
نوکِ نیزہ پہ اپنا سر رکھ دے

0
89
ہر خواب کو شرمندہِ تعبیر بنا دو
طارق کی طرح کشتیاں ساحل پہ جلا دو
تاریخ کا ہر لفظ تمہیں یاد کرے گا
کشمیر میں اٹھتے ہوئے شعلوں کو بجھا دو
ہر طاق میں آزاد  چراغوں کو جلا کر
دلہن کی طرح وادیِ کشمیر   سجا دو

0
86
ہے کیا خوبصورت  سفر دوستی کا
کوئی جان لے راز گر دوستی کا
یقیناَ زمانے کا ہے وہ سکندر
ملا ہے جسے یہ  ہنر دوستی کا
ہے استاد جو دوستوں سےبھی بڑھ کر
کڑی دھوپ میں اک شجر  دوستی کا

0
113
یہ کبھی سوچا نہ تھا  وہ یوں بھی جائے گا بدل
جو   بنا میرے کبھی رہ سکتا تھا نا  ایک پل
تم تو میری ہر غزل کی  شاعری ہو  اے صنم
استعاروں اور تشبیہات میں تم ہو  بے مثل
وقت تو آ خر  گزر ہی جائے گا بس یاد رکھ
آج تیرا ہے تو پھر کیا میرا بھی ہوگا یہ کل

0
274
درد میں ڈوبی کبھی شام نہ ہونے دوں گا
تیرے ہونٹوں پہ کبھی جام نہ ہونے دوں گا
خون  دل دے کے ترا حسن  سجایا ہم نے
اے وطن تجھ کو میں نیلام نہ ہونے دوں گا
تنہایاں دوریاں مجبوریاں  رسوائیاں غم
اپنی چاہت کا یہ انجام نہ ہونے دوں گا

0
87
رقیبوں  سے بھی  رکھے ہیں روابط دوستی کی طرح
جلا رکھا ہے دل کے زخموں کو بھی روشنی  کی طرح
نہ کوئی خط نا  قاصد نا   ہے کوئی  رازداں  کی فکر
مشینیں دے رہی ہیں یہ تو خدمت  آ دمی کی طرح
بھڑکتے  شعلے نفرت  کے نہ دنیا میں ہی  مرتے لوگ
اگر انسان رہتا  اس جہاں  میں آدمی کی طرح

0
83
زمانے میں مثالیں چھوڑ جاتے
نئے لہجے کی بحریں چھوڑ جاتے
نہیں کچھ اور تو بچوں کی خاطر
وراثت میں  کتابیں چھوڑ جاتے
تجھے جانا تھا اتنا ہی ضروری
تو اپنی چند یادیں چھوڑ جاتے

0
101
جب سے نکالا  خلد سے  ہم  امتحاں میں ہیں
اب کوئی جانتا نہیں کے کس  جہاں میں ہیں
تہہ در  زمیں ہے تو ہے یہ تہہ در ہی  آسماں
  اب ہم زمیں  پہ ہیں یا  ابھی آسماں میں ہیں
اک ایک کر کے کھل رہے  ہیں راز  مجھ پہ اب
لگتا ہے میرے راز  ابھی  رازداں میں ہیں

0
102
"گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے"
جو چھوڑ کر چلے جائیں نہ لوٹ پائیں  گے
مرے توں حال پہ  کیوں رو رہا ہے  چارا گر
ہماری قِسمتوں میں تھا - جدا  ہو  جائیں گے
میں اتنا بھی ہوں نہیں  آساں کے سمجھ  جاؤ
  یہ چند لفظ  بیاں   مجھ کو کر  نہ  پائیں گے

0
125
اکتا  گئے ہیں درد  بھری زندگی  سے  ہم
لگتا ہے مر ہی جائیں گے اب بے بسی سے ہم
یہ دن بھی دیکھنا تھا ہمارے نصیب میں
اُن کو بھی چھوڑ جائیں گے بد قسمتی سے ہم
وہ  آتے  میری  حسرتوں کی آ س اوڑھ  کر
ان کی رہ  میں دیے جلا دیتے خوشی سے ہم

179
حسین زندہ ہے زندہ دلوں کا چارہ ہے
حسین صبر و تحمل کا  استعارہ ہے
وہ ظلم کے ہے مقابل نشاں امامت  کا
حسین سب کا  ہمارا  ہے نا تمہارا ہے

126
جس دل میں جاگزیں ہے محبت حسین کی
بے شک اسے نصیب ہے قربت حسین کی
وہ شمع ھدا وہ حق و  صداقت کا آفتاب
عالم پہ ہے محیطِ امامت حسین کے
سر کو  سجا کے شوق سے  نیزے کی نوک پر
شام و سحر کریں گے تلاوت حسین کی

0
85
جو اذاں اکبرؑ نے دی تھی کربلا کی ریت پر
گونجتی اب تک وہی ہے شام و صُبح و دوپہر
اے مرے آقا! عزاداروں کی محنت دیکھ لے
در پہ آئے ہیں ترے، لے واسطہ زہراؑ کا در
ہائے قاسمؑ! تیرے لاشے پر ستم کی انتہا
نیزہ گردن میں لگا تھا، تیروں سے زخمی جگر

52
  پاکستاں  جو  رازوں میں  اک راز  خدا  کا ہے
  یہ نشان محمد اور علی سے وفا کا ہے
جو بغض رکھے گا مرے پاکستاں  سے عاصم
اس کا انجام بھی   عبرت ناک  سزا  کا ہے

91
زندگانی کا وجود ایک دو پل ہو جیسے
کوئی باضابطہ قانون اٹل ہو جیسے
ولولے حسن کی جدت کے ابھر آئے ہیں
نئی تہذیب و تمدن کی غزل ہو جیسے
زیست کو زیر و زبر دیکھ کے محسوس ہوا
پھیلنے اور سمٹنے کا عمل ہو جیسے

89
خوف اک وہی رہتا ہے مرے  خیالوں میں
کو فیوں  سی عادت ہے تیرے شہر والوں میں
بے مثال ہے تُو سب حسن کے حوالوں میں
میر کی غزل غالب ، جوش، کی مثالوں میں
لفظوں میں جو شامل ہے زہر تیرے لہجے کا
    کاٹ رکھتی ہے تیری یہ زباں سوالوں میں

50
سر سے دیوانگی نہیں جاتی
زندگی  کیوں سکوں  نہیں پاتی
شام کتنی اداس ہے جاناں
آج کی رات تو ٹھہر جاتی
جان کہہ کر اسے پکارا تھا
کیوں نہ آنچل ہوا میں لہراتی

0
85
مرشد بڑے دکھ درد سے لفظوں کو چنا ہے
آساں ہے سمجھنے میں تو اردو میں کہا ہے
ہر لفظ کو توں نے جو سلیقے سے چنا ہے
کیا خوب گلستانِ سخن میں یہ سجا ہے
طاقت پہ  نہ دولت پہ   بھروسہ کبھی  کرنا
یہ وقت کبھی ہاتھ میں کب آ  کے  رکا ہے

0
84
کبھی میں راز کی باتیں چھپانا بھول جاتا ہوں
جو تیرا نام لکھوں تو مٹانا بھول جاتا ہوں
بہت کچھ سوچتا ہوں بات دل کی میں کروں تم سے
جو ملنا  آپ سے ہو  تو  بتانا بھول جاتا ہوں
نجانے کیوں وہ وعدے آپ سے کر تا  ہوں میں اکثر
جو فکرِ روزگاری میں نبھانا بھول جاتا ہوں

0
189
آواز  جسے  دوں وہ صداؤں میں نہیں ہے
تم جیسا  کوئی ایک بھی گاؤں میں نہیں ہے
کس بات سے ڈرتے ہو تمہیں کون سی الجھن
کوئی بھی تو پتھر تری راہوں میں نہیں ہے
میں جان گیا ہوں تری مجبوریاں جاناں
   پازیب جو دی تھی ترے پاؤں میں نہیں ہے

0
138