دل کے نہاں خانوں میں یہ ایمان بھی رکھنا |
اس دشتِ محبت میں تُو احسان بھی رکھنا |
راتوں کو چمکتے ہوئے جگنو نہیں کافی |
ڈھلتے ہوئے سورج کا ذرا دھیان بھی رکھنا |
بچھڑو تو نگاہوں میں وہ پہلی سی چمک ہو |
آنکھوں میں پرانے کئی طوفان بھی رکھنا |
جنگل کا سفر ،کچھ بھی ہو سکتا ہے یہاں پر |
خطرات سے بچنے کا تو سامان بھی رکھنا |
لفظوں کا تقدس کہیں پامال نہ ہو جائے |
کوئی بھی غزل لکھتے ہوئے دھیان بھی رکھنا |
اس گلی میں جانا تو لگا ہی رہے گا اب |
بہتر ہے کہ ہر شخص سے پہچان بھی رکھنا |
کھلتے ہیں ترے لمس سے سب رنگ گلابی |
ان لمحوں کو دل میں کہیں مہمان بھی رکھنا |
معلومات