Circle Image

سید گلزار عاصم

@gulzarasim5@gmail.com

جس کی تحریر مقدس ہے صحیفوں جیسی
جس کا ہر لفظ مری نظم کا عنوان بنا
جس کی زلفوں میں گھٹا دیکھ کہ بادل جھومے
جس کے ہونٹوں کی مہک چھو کے گلستان بنا
لب ہلائے تو شگوفوں کے بدن کھل جائیں
مسکرائے تو تبسم کاشرارہ پھوٹے

0
16
کیوں خوابوں کے جال بُنیں
اک مدت سے سوچ رہا ہوں
تم سے دل کی بات کہوں
اپنے پاس بٹھا کر تم کو
چاہت کا اظہار کروں
کاش کوئی ان سونے والے

18
صبر لازم ہے مگر صبر کی حد ہوتی ہے
"ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے"
تجھ کو مانگا ہے تہجد کی نمازوں میں میں نے
اُس گھڑی مانگی دعا بھی کبھی رد ہوتی ہے
میری ہر بات کو تو جھٹلا دیا جاتا ہے
اس کی ہر بات کہی جیسے سند ہوتی ہے

0
26
جس دل میں جاگزیں ہے محبت حسین کی
بے شک اسے نصیب ہے قربت حسین کی
وہ شمعِ ھدا وہ حق و صداقت کا آفتاب
عالم پہ ہے محیطِ امامت حسین کے
سر کو  سجا کے شوق سے نیزے کی نوک پر
شام و سحر کریں گے تلاوت حسین کی

0
25
ظلم کو ظلم کہیں بھی تو بُرا لگتا ہے
"دورِ حاضر میں تو جینا بھی سزا لگتا ہے"
اب تو موسیٰ بھی نہیں کس کو پکاریں مولا
بر سرِ تخت جو بیٹھا ہے خدا لگتا ہے
لشکرِ شام میں پھر ہو رہی ہے صف بندی
کربلا ہے مگر انداز نیا لگتا ہے

1
45
الجھنیں حل طلب ہے چھوڑ گیا
جانے کیوں بے سبب ہے چھوڑ گیا
جس کو میں دل و جاں سے چاہتا تھا
مجھ کو نا جانے کب ہے چھوڑ گیا
جس کی شدت سے اب ضرورت تھی
ہائے  کمبخت  کب  ہے چھوڑ گیا

48
ہر روز مجھ کو اک نئی تصویر چاہیے
تسکینِ دل  کے واسطے تحریر چاہیے
جو الف لام میم کے معنی بتا سکے
ایسے امام کی لکھی تفسیر چاہیے
نادِ علی ضروری ہے ہر فتح کے لیے
تقدیر ساتھ  بھی ہو تو تدبیر چاہیے

55
نہیں ہے واسطہ میرا کسی حقیقت سے
میں ایک خواب ہوں آنکھوں میں نا بساؤ مجھے
برائے نام ہے ہستی مری زمانے میں
تمہارے واسطے بہتر ہے بھول جاؤ مجھے

60
دل کی گہرائی میں سوچوں کو اترتے دیکھنا
ولولہ انگیز جذبوں کو ابھرتے دیکھنا
ابتدا سے ہی مرے منشور میں شامل نہیں
سر سے اوپر اس طرح پانی گذرتے دیکھنا
----------------------------------
خون دل سے لکھی تھیں جو غزلیں

50
کیسے بدلا ہے محبت کا جہاں سوچو ذرا
ہائے کیوں پیدا ہوا وہم و گماں سوچو ذرا
آپ کی خاطر بتاؤ کیا نہیں میں نے کیا
جانِ من ! جانِ تمنا ، جانِ جاں سوچو ذرا

60
لو روز روز کی بدنامیوں سے تنگ آ کر
ہمیشہ کیلئے گاؤں سے جا رہی ہوں میں
لکھے تھے پیار سے تونے مجھے جو خط عاصم
بڑے ہی دکھ سے انہیں اب جلا رہی ہوں میں
------------------------------------
آنکھوں آنکھوں میں بات ہوتی ہے

60
اتفاقاً وہ جب بھی ملتے ہیں
آرزؤں کے ہی پھول کھلتے ہیں
یاد آتے ہیں جب حسیں لمحے
اشک بے ساختہ نکلتے ہیں
——————————
ایک انجانے خوف سے عاصم

58
جب تو پہلی بار ملا تھا
دل میں پیار کا دیپ جلا تھا
آدمی رات کو ٹوٹ کے تارا
میرے گھر میں آن گرا تھا
ساری دنیا کو ٹھکرا کر
میں نے تم سے پیار کیا تھا

0
124
آج وہ پہلی بار ملا ہے خوش ہوکے
چاہت کا اظہار کیا ہے خوش ہو کے
دل کے ساتھ لگا کر گہرے زخموں کو
ہم نے غم کا زہر پیا ہے خوش ہو کے
لوگو آکر دیکھ لو اپنی آنکھوں سے
سولی پر منصور چڑھا ہے خوش ہوکے

0
59
ہر کلی مرجھا گئی ہے باغباں جانے کے بعد
جاں کے لالے پڑ گئے ہیں جان جاں جانے کے بعد
کون بتلائے گا اب مجھ کو صراطِ مستقیم
محسنِ اعظم ، امیرِ کارواں جانے کے بعد
روٹھنے والا یقیناً اس جگہ پر ہے گیا
لوٹ کر کوئی نہیں آتا جہاں جانے کے بعد

40
نفیس جذبے قدیم قصے نئی امنگیں تلاش کرنا
نئی ثقافت کے زاویوں سے جدید راہیں تلاش کرنا
جو زندگی کے اداس لمحوں کا جب بھی تم کو خیال آئے
تو شامِ غم کا چراغ لے کر ہماری غزلیں تلاش کرنا
اگر تصور کی وادیوں میں گلاب چاہت کے مسکرائیں
حسین یادیں لگا کے دل سے جوان راتیں تلاش کرنا

63
اک مدت سے سوچتا ہوں
تم سے دل کی بات کہوں
تم کو اپنے پاس بیٹھا کر
چاہت کا اظہار کروں
کاش کوئی ان سونے والے
جذبوں کو بیدار کرے

35
آپ نے یاد کیوں کیا ہے مجھے
خوب اچھی طرح پتا ہے مجھے
جانتا ہوں میں اس کی مجبوری
جس نے بیرنگ خط لکھا ہے مجھے
نہ کسی قسم کی شکائت ہے
نہ کسی قسم کا گلہ ہے مجھے

66
آگ دل میں جلا کے بیٹھے ہیں
غم ۔کو سینے لگا کے بیٹھے ہیں
دیکھ زندہ دلی فقیروں کی
اپنا تن من لٹا کے بیٹھے ہیں
جانے کیا ہو گئی خطا ہم سے
یار سب منہ بنا کے بیٹھے ہیں

46
سامنے رکھ کے تری تصویر کو
ڈھونڈتا ہوں خواب کی تعبیر کو
خشک ہونٹوں سے لگا کر بار بار
چومتا ہوں آپ کی تحریر کو
ہو گیا برباد بیلے کا سکوں
بانسری کیسے سناؤں ہیر کو

66
ہر طرف دھوم ہے بہاروں کی
عید آئی ہے غم گساروں کی
مسکرائی ہے رات کی رانی
سر پہ چادر لئے ستاروں کی
وحشتِ دل بتا کہاں جاؤں
باڑ ہے ارد گرد تاروں کی

53
دیکھتے دیکھتے جب وقت گذر جاۓ گا
سایہ دیوار سے گھبرا کے اتر جائے گا
کیا کبھی غور سے سوچا ہے تو اس بارے میں
دل پہ ٹوٹی جو قیامت تو کدھر جاۓ گا
جب مرے گھر میں کوئی بن کے بہار آۓ گی
میرا پھولوں کی طرح رنگ نکھر جائے گا

50
بے اختیار وقت سے ٹکرا گیا ہوں میں
گر کر زمیں پہ ہوش میں پھر آ گیا ہوں میں
جاں پر بنی تو ذہن بھی مفلوج ہو گیا
اک کشمکش میں مبتلا جب سے ہوا ہوں میں
آتا ہے کون سامنے طوفاں کی طـرح
جب بھی اڑان کے لئے پر تولتا ہوں میں

53
پہلے دل پر چوٹ کوئی کھائیے
پھر مرے نزدیک اتنا آیئے
آئے گی کھل کر حقیقت سامنے
ذہن میں عمرِ گذشتہ لائیے
جانے والے جانے سے پہلے ذرا
ایک میری بات سنتے جائیے

33
کھلے کھلے سے گلاب چہرے
کھلی کھلی سی کتاب چہرے
یقین جانو کہ محترم ہیں
عظیم عزت مآب چہرے
گزر گئے ہیں چرا کے نظریں
بدل گئے ہیں جناب چہرے

92
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو !
حسیں بیتے لمحوں کی لمبی کہانی
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو !
محبت کے موسم کی رت وہ سہانی
یا میں جانتا ہوں یا تم جانتی ہو ۔
وہ دلکش نظارے وہ موسم سہانا

50
جب بھی گردش میں کوئی جام آیا
مرے ہونٹوں پہ تیرا نام آیا
کل جو رحمت کا اک فرشتہ تھا
آج وہ بھی نہ میرے کام آیا
ایک مدت کے بعد آج ان کا
دست بستہ ہے پھر سلام آیا

59
زندگانی کا وجود ایک دو پل ہو جیسے
کوئی با ضابطہ قانون اٹل ہو جیسے
ولولے حسن کی جدت کے ابھرآئے ہیں
نئی تہذیب و تمدن کی غزل ہو جیسے
زیست کو زیر و زبر دیکھ کے محسوس ہوا
پھیلنے اور سمٹنے کا عمل ہو جیسے

44
یار کے غم کو اپنا غم جانا
پیار کے دم سے دم میں دم جانا
زندگی کی حسین الجن کو
تری زلفوں کا پیچ و خم جانا
وصل کی شب قلیل ہوتی ہے
اے سحر ! تھوڑی دیر تھم جانا

63
دل پریشان ہے چلے آؤ
آنکھ ویران ہے چلے آؤ
سونی سونی میں شہر کی گلیاں
رات سنسان ہے چلے آؤ
کوئی پتھر نہیں رہا باقی
راہ آسان ہے چلے آؤ

36
جس دل میں مکیں پیار کی چاہت نہیں ہوتی
اس دل کو عطا درد کی لذت نہیں ہوتی
جس دیش میں انصاف کے پورے ہوں تقاضے
اس دیش میں خوں ریز بغاوت نہیں ہوتی
اک ٹھوس حقیقت ہے کہ لوگوں کے دلوں پر
طاقت کے دباؤ سے حکومت نہیں ہوتی

1
52
کس نے چھیڑا ہے غم کا افسانہ
درد سے بھر گیا ہے پیمانہ
کاش کوئی سنبھال کر رکھے
میرے معصوم دل کا نذرانہ
کھل گیا راز گہرے زخموں کا
بند جب سے ہوا ہے میخانہ

45
جس کے لئے جہان کو دشمن بنا لیا
اس نے بڑے خلوص سے دامن چھڑا لیا
تہہ دل کے ساتھ شکر یہ اس کا ادا کرو
روٹھی ہوئی بہار کو جس نے منا لیا
ہرگز کبھی نہ آؤں گا تیرے فریب میں
دھو کا جو جان بوجھ کے کھانا تھا کھالیا

65
کس کے گھر میں بہار آئی ہے
چاندنی رات مسکرائی ہے
پیار کے دل فریب وعدوں نے
زندگی خاک میں رلائی ہے
ہر طرف تم ہی تم نظر آئے
ہر طرف آپ کی دہائی ہے

90
دوستوں کا میں کوئی صلہ نہیں رکھتا
دشمنوں سے بھی کوئی گلا نہیں رکھتا
دل میں کسی کا جو احترام نہ رکھے
ایسے کسی سے میں رابطہ نہیں رکھتا
اس کو شکایت رہی  ہمیشہ ہی مجھ سے
پاس جو بیٹھوں تو  فاصلہ نہیں رکھتا

4
78
سنگدل کو دیوتا کیسے کہوں
ظلمتِ شب کو ضیا کیسے کہوں
رات دن یہ سوچتا رہتا ہوں میں
بے وفا کو با وفا کیسے کہوں
لوٹا ہے جن لوگوں نے میرا وطن
رہزنوں کو رہنما کیسے کہوں

63
وفا کے دیپ جِلاؤ بڑا اندھیرا ہے
خودی کو ہوش میں لاؤ بڑا اندھیرا ہے
فلک پہ کوئی بھی تارا نظر نہیں آتا
نقاب رخ سے اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ہمارے واسطے اتنی سزا ہی کافی ہے
ہمارا دل نہ دکھاؤ بڑا اندھیرا ہے

1
81
سنگدل کو دیوتا کیسے کہوں
ظلمتِ شب کو ضیا کیسے کہوں
رات دن یہ سوچتا رہتا ہوں میں
رہزنوں کو رہنما کیسے کہوں
،
جو کسی کی بات سن سکتا نہیں

77
یاد ہے اب تک وہ ماضی کی مکمل داستاں
وہ سہانی چاند راتیں وہ بہاروں کا سماں
یاد ہے اچھی طرح گذرا زمانہ آج بھی
یاد ہیں اب تک حسیں وعدے سبھی اے جان جاں
سوچا تھا کہ خواب کی تعبیر مجھ کو مل گئی
زندگی کے روپ میں تنویر مجھ کو مل گئی

0
55
دوست جب زہر پلانے آۓ
پھر مرے ہوش ٹھکانے آۓ
جل گیا آشیاں جب تنکوں کا
لوگ پھر آگ بجھانے آئے
ساتھ جب دوست نئے چھوڑ گئے
یاد پھر دوست پرانے آۓ

0
59
سلسلہ میری چاہتوں کا ہے
تتلیوں جیسی خواہشوں کا ہے
جب سے موسم خراب ہے دل کا
سلسلہ تب سے بارشوں کا ہے
مشکلوں میں گرا ہے میرا وطن
جا بجا  جال سازشوں کا ہے

0
86
خوشبو خوشبو ، اجلے اجلے ، گل رخ رنگ رنگیلے ہونٹ
قطره قطره شبنم شبنم سجل چھیل چھبیلے  ہونٹ
جی میں ہے کہ چوم لوں جا کر پاؤں میں اس جوگی کے
جس نے کالا منتر پڑھ کر ناگن جیسے کیلے ہونٹ
شائد کوئی بھنورہ بن کر باغ میں آنے والا ہے
سوہے جوڑے میں ملبوس ہیں لالہ زار سجیلے ہونٹ

1
99
سرخ آنچل کے ہواؤں میں اشارے دیکھے
چاک ہونٹوں پہ تبسم کے نظارے دیکھے
تو نے کل شام کو ملنے کی قسم کھائی تھی
جا سبھی جھوٹے ترے پیار کے لارے دیکھے
کس پے عمبر نے درختوں سے پنا مانگی ہے
وقت کے ہاتھ میں ہیں موت کے آرے دیکھے

77
حقیقت کو سمجھ سکتے نہیں جو لوگ جاہل ہیں
بتوں سے مانگنے والے مرادیں کتنے پاگل ہیں
طلاطم خیز موجوں میں سفینہ دیکھ کر میرا
به اندازِ تماشائی تبسم خیز ساحل ہیں
مری آنکھوں کے نیلے آسماں کو غور سے دیکھو
جہاں برسات ہی برسات ہے بادل ہی بادل ہیں

50
کیا خبر تھی دل میں یوں بس جاؤ گے
اس قدر نزدیک میرے آؤگے
دیکھ لینا اب نہ کو ئی بھول ہو
ورنہ ساری زندگی پچھتاؤ گے
خود بخود ہو جائے گا روشن دماغ
ٹھوکروں پر ٹھوکریں جب کھا ؤ گے

89
مانا کہ تیرے  پیار کے قابل نہیں ہوں میں
بے شک تری تلاش کا حاصل نہیں ہوں میں
ہر چند  تیری ذات سے کچھ اختلاف ہے
پھر بھی ترے خیال سے غافل نہیں ہوں میںں
تجدیدِ عہد بھی تو  دوبارا ہو سکتا ہے
ترکِ تعلقات کا  قائل نہیں ہوں میں

82
آپ کو اب قسم کی ضرورت نہیں
میں یقیں کرتا ہوں آپ کی بات پر
پہلو میں یار جو ہو اگر  جانِ جاں
کیسے رکھے گا قابو وہ جذبات پر
دشمنوں کی نظر  میں نہیں آنا ہے
ہر جگہ ہیں جو  بیٹھے ہوئے گات پر

55
خوف اک وہی رہتا ہے مرے  خیالوں میں
کو فیوں  سی عادت ہے تیرے شہر والوں میں
بے مثال ہے تُو سب حسن کے حوالوں میں
میر کی غزل غالب ، جوش، کی مثالوں میں
لفظوں میں جو شامل ہے زہر تیرے لہجے کا
    کاٹ رکھتی ہے تیری یہ زباں سوالوں میں

38
نادِ علی کے ورد نے   جھکنے نہیں دیا
کن فایا کون  بھی کبھی  گرنے نہیں دیا
ہر طوفاں سے وہ ٹکرا بھی سکتا تھا مگر
کشتی کو راستہ ہی بھنور   نے نہیں دیا
ناکامیوں سے دل تو بہت ڈرتا ہے مگر
ولناس کے وظیفوں نے ڈرنے نہیں دیا

2
110
ان گِنت آسمان کے تارے رقیب ہیں
ساحل کے ساتھ ساتھ کنارے رقیب ہیں
کانٹا چبھا تو ایک دم احساس ہو گیا
موسم کے دل فریب نظارے رقیب ہیں
ہائے تمہارے شہر میں بھی اتفاق سے
کوئی نہیں ہے  خیر خواہ سارے رقیب ہیں

2
88
ایک مدت سے ہی میں حسرت ہے
تیری بانہوں میں ڈال کر بانہیں!
دل کے دریا میں غرق ہو جاؤں
تیرے پاؤں پہ رکھ کے سر اپنا
موت بن کر مزے سے سوجاؤں
ایک مدت سے ہی میں حسرت ہے

1
66
جس محبت کیلئے زہر پڑا تھا کھانا
کیا خبر تھی کہ اسے توڑ کے دل ہے جانا
لاکھ طوفان بھی آجائیں اگر راہوں میں
موت کے خوف کو خاطر میں کبھی نہ لانا
شک کی نظریں میں تعاقب میں بڑی مدت
آپ کا ٹھیک نہیں روز گلی میں آنا

43
زندگی کچھ اس طرح سے ہو گئی مصروفِ کار
کوئی بھی سنتا نہیں مظلوم کی چیخ و پکار
جن کے دم سے چل رہا ہے زندگی کا کاروبار
کب تلک ہوتے رہیں گے وہ تشدد کا شکار
حضرتِ انسان کی تذلیل ہو کر رہ گئی
ایکدم اخلاق سے گر کر ہوا مجرح و قار

50
پوچھ نہ کیسے ہوا، کیوں کر ہوا
ٹھیک ہے بس جو ہوا بہتر ہوا
اٰگ گئی سرسوں نظر کے سامنے
یہ تجربہ بھی ہتھیلی پر ہوا
میں نے جو چاہا تھا وہ نہ ہو سکا
جو نہ چاہا تھا وہی آخر ہوا

70
خواب  آنکھوں میں بسا  ہو جیسے
دشت  میں پھول کھلا  ہو جیسے
وہ پریشاں ہو تو یوں لگتا ہے
چاند کچھ بھول گیا ہو جیسے
اللہ حافظ بھی  کہا ہے اس نے
اک کیا  فرض ادا  ہو جیسے

59
"گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے"
جو چھوڑ کر چلے جائیں نہ لوٹ پائیں  گے
بہت سے راز ہیں  پوشیدہ جو  مرے فن کے
  مقالے تیرے  بیاں مجھ کو کر  نہ  پائیں گے
یہ زندگی تو  امانت سمجھ کے جی رہے ہیں
کسی بھی دن تری دہلیز  چھوڑ آئیں گے

0
81
خواب  آنکھوں میں بسا  ہو جیسے
دشت  میں پھول کھلا  ہو جیسے
وہ پریشاں ہو تو لگتا ہے یوں
چاند کچھ بھول گیا ہو جیسے
اللہ حافظ بھی  کہا ہے اس نے
آخری فرض ادا  ہو جیسے

0
45
  یا علی  مجھ کو سخنور کر دے
   شہرِ اماں کا  گداگر  کر دے
میں لکھوں سارے قصیدے تیرے
اپنی مولائی کا مظہر کر دے
بس تعلق ہے تری نسبت سے
مولا میں خاک ہوں  گوہر کر دے

2
131
دل میں بن کے وہ  آس رہتا ہے
جو  مرے آس پاس رہتا ہے
آنکھیں تیری پریشاں ہیں جانم
دل تو میرا اداس رہتا ہے
تیرے مہ خانہ میں بھی اے ساقی
میرا  اک  غم  شناس رہتا ہے

0
64
دیکھتے دیکھتے جب وقت گزر جائے گا
سایہ دیوار سے گھبرا کے اتر جائے گا
کیا کبھی غور سے سوچا ہے تو اس بارے میں
دل پہ ٹوٹی جو قیامت تو کدھر جائے گا
جب مرے گھر میں کوئی بن کے بہار آئے گی
میرا پھولوں کی طرح رنگ نکھر جائے گا

69
"کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا"
حالات کے طوفاں سے گزر کر نہیں دیکھا
جس گھر کے لیے  ہم نے وطن چھوڑ دیا تھا
مدت ہوئی  ہے  لوٹ کہ وہ گھر نہیں دیکھا
کرتا ہے بڑے شوق سے اڑنے کا تقاضا
دل جیسا حسیں کوئی کبوتر نہیں دیکھا

0
83
پہلے کی طرح تم سے محبت تو اب بھی ہے
شاید تمہیں بھی میری ضرورت تو اب بھی ہے
دن بھر کا گھومنا ہے۔ تو  راتوں کا  جا گنا
خانہ بدوش یار کی عادت تو اب بھی ہے
پھر کیا ہوا کہ اب وہ شہنشاہ نہیں ہوں میں
چھوٹی سہی یہ گھر کی ریاست تو اب بھی ہے

0
57
غزل کہنے کی عادت ہو گئ ہے
مجھے شاید محبت ہو گئ ہے
اسے کل غور سے دیکھا تھا میں نے
نہائت  خوبصورت ہو گئی ہے
  چھپا کر اب کیا حاصل کرو گے
عیاں ساری حقیقت ہو گئی ہے

0
63
 جو رشتہ پیار کا حاصل نہیں ہے
سرا سر دید کے قابل نہیں ہے
چلو اپنے جہاں کو لوٹ جائیں
یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں ہے
تجھے کس بات کا ہے  خوف جاناں
کوئی جب  درمیاں  حائل نہیں ہے

0
49
آیت الکرسی لکھی ماں نے ہے جب سے   ماتھے پر
اب اندھیروں سے مجھے لگتا  نہیں ہے کوئی  ڈر
سب پرندے اب تو ہجرت کر رہے ہیں آجکل
بستیاں اب کھا چکی ہیں کھیت پودے اور شجر
وہ بڑھی آسانی سے اک دن  بھلا دے گا مجھے
جو یہ کہتا تھا نہ بھولیں گے تجھے ہم عمر بھر

0
78
اللہ کے ولی  سے جو محبت نہیں کرتے
ہر گز وہ ادا حقِ ولایت نہیں کرتے
ہم لوگ حسینی ہیں  یہ شیوہ ہے   ہمارا
ہم  فاسق و فاجر کی اطاعت نہیں کرتے
ہم مالکِ  دیں ہیں تو حفاظت بھی کریں گے
بے وجہہ کسی سے بھی عداوت نہیں کرتے

0
67
شادی کی رسومات کی زنجیر مبارک
تجھ کو ترے ہر خواب کی تعبیر مبارک
رہنے دو مرے پاس مقدر کی سیاہی
وہ وقت کا رانجھا ہے اسے ہیر مبارک

0
64
عاصم  جہاں بھی گرم گرم چائے مل سکے
تھوڑی سی دیر کے لیے آؤ وہاں چلیں
تنہائیوں کی میز پہ  کونے میں بیٹھ کر
کچھ ہم سنائیں آپ کو کچھ آپ کی سنیں

0
83
بھولنا چاہتا تھا جنہیں  عمر بھر
یاد   آتے ہیں رہ رہ کہ شام و سحر
جگنو میں اور یہ میرا آوارہ پن
رات بھر  پھرتے ہیں اجنبی  راہوں  پر
اب کہ میں ایسی بستی میں آ چکا ہوں
بات جس سے کروں وہ ہو جائے پتھر

32
خدا  کرے کہ  کوئی بھی بُری خبر نہ ملے
مرا کوئی بھی  رقیبوں سے  نامہ بر نہ ملے
اداس لوگ تھے چہرے وہ آنکھیں بھی نم تھیں
جو لوگ پھر کبھی  بھی راہِ ہمسفر نہ ملے
یہ گھر کیا   ہوا  تقسیم فرد  بھی  ہو گئے
کہ  ساتھ ساتھ وہ رہتے  بھی عمر بھر نہ ملے

0
39
کاش پہلو سے کوئی چاند نکلتا دیکھوں
دل کے آنگن میں کوئی پھول مہکتا دیکھوں
عین اس وقت سبھی زخم ہرے ہوتے ہیں
خشک ٹہنی پہ کوئی جب میں پپیہا دیکھوں
طوطے اڑ جاتے ہیں اس وقت مرے ہاتھوں کے
کونج کو ڈار سے جس وقت بچھڑتا دیکھوں

0
49
   مقتل سے آ رہی ہے اذاں کی  صدا مجھے
پھر سے بلا رہا ہے کوئی کربلا مجھے
جی چاہتا ہے شعر کہوں یا غزل لکھوں
کچھ روز سے  نجانے  ہے کیا  ہو گیا مجھے
تیرا وہ ملنا سردیوں کی گہری شام میں
آتا ہے یاد  دھند میں لپٹا ہوا  مجھے

0
61
عشق صوفیانہ ہے
حسن شاعرانہ ہے
تیرے شہر کا موسم
تو بہت سہانا ہے
کام سے نہیں  فرصت
یہ تو اک بہانا ہے

0
59
ملنے کی اب کہاں فرصت ہو گی
فون ہی کر لو عنایت  ہوگی
ہر محبت پہ یوں لگتا ہے مجھے
آخری اب  یہ محبت ہو گی
جب کھڑے ہوں گے خیالِ بتاں میں
تیری پھر خاک عبادت ہو گی

0
89
مر حبا صد آفریں میرے حضور
رحمتَ اللعالمیں میرے حضور
سرورِ دیں مالکِ ارض و سماں
زینتَِ عرشِ بریں میرے حضور
محسنَِ اعظم  حبیبِ کبریا
پیکرِ صدق و یقیں میرے حضور

0
69
میرے الفاظ میں اثر رکھ دے
دل کی دنیا اجھال کر رکھ دے
روشنی کی  کرن کہیں پھوٹے
قید خانے میں کوئی در  رکھ دے
سچ اگر بولنے کی ہمت ہے
نوکِ نیزہ پہ اپنا سر رکھ دے

0
70
ہر خواب کو شرمندہِ تعبیر بنا دو
طارق کی طرح کشتیاں ساحل پہ جلا دو
تاریخ کا ہر لفظ تمہیں یاد کرے گا
کشمیر میں اٹھتے ہوئے شعلوں کو بجھا دو
ہر طاق میں آزاد  چراغوں کو جلا کر
دلہن کی طرح وادیِ کشمیر   سجا دو

0
65
ہے کیا خوبصورت  سفر دوستی کا
کوئی جان لے راز گر دوستی کا
یقیناَ زمانے کا ہے وہ سکندر
ملا ہے جسے یہ  ہنر دوستی کا
ہے استاد جو دوستوں سےبھی بڑھ کر
کڑی دھوپ میں اک شجر  دوستی کا

0
82
یہ کبھی سوچا نہ تھا  وہ یوں بھی جائے گا بدل
جو   بنا میرے کبھی رہ سکتا تھا نا  ایک پل
تم تو میری ہر غزل کی  شاعری ہو  اے صنم
استعاروں اور تشبیہات میں تم ہو  بے مثل
وقت تو آ خر  گزر ہی جائے گا بس یاد رکھ
آج تیرا ہے تو پھر کیا میرا بھی ہوگا یہ کل

0
181
درد میں ڈوبی کبھی شام نہ ہونے دوں گا
تیرے ہونٹوں پہ کبھی جام نہ ہونے دوں گا
خون  دل دے کے ترا حسن  سجایا ہم نے
اے وطن تجھ کو میں نیلام نہ ہونے دوں گا
تنہایاں دوریاں مجبوریاں  رسوائیاں غم
اپنی چاہت کا یہ انجام نہ ہونے دوں گا

0
69
رقیبوں  سے بھی  رکھے ہیں روابط دوستی کی طرح
جلا رکھا ہے دل کے زخموں کو بھی روشنی  کی طرح
نہ کوئی خط نا  قاصد نا   ہے کوئی  رازداں  کی فکر
مشینیں دے رہی ہیں یہ تو خدمت  آ دمی کی طرح
بھڑکتے  شعلے نفرت  کے نہ دنیا میں ہی  مرتے لوگ
اگر انسان رہتا  اس جہاں  میں آدمی کی طرح

0
51
زمانے میں مثالیں چھوڑ جاتے
نئے لہجے کی بحریں چھوڑ جاتے
نہیں کچھ اور تو بچوں کی خاطر
وراثت میں  کتابیں چھوڑ جاتے
تجھے جانا تھا اتنا ہی ضروری
تو اپنی چند یادیں چھوڑ جاتے

0
66
جب سے نکالا  خلد سے  ہم  امتحاں میں ہیں
اب کوئی جانتا نہیں کے کس  جہاں میں ہیں
تہہ در  زمیں ہے تو ہے یہ تہہ در ہی  آسماں
  اب ہم زمیں  پہ ہیں یا  ابھی آسماں میں ہیں
اک ایک کر کے کھل رہے  ہیں راز  مجھ پہ اب
لگتا ہے میرے راز  ابھی  رازداں میں ہیں

0
85
"گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے"
جو چھوڑ کر چلے جائیں نہ لوٹ پائیں  گے
مرے توں حال پہ  کیوں رو رہا ہے  چارا گر
ہماری قِسمتوں میں تھا - جدا  ہو  جائیں گے
میں اتنا بھی ہوں نہیں  آساں کے سمجھ  جاؤ
  یہ چند لفظ  بیاں   مجھ کو کر  نہ  پائیں گے

0
88
اکتا  گئے ہیں درد  بھری زندگی  سے  ہم
لگتا ہے مر ہی جائیں گے اب بے بسی سے ہم
یہ دن بھی دیکھنا تھا ہمارے نصیب میں
اُن کو بھی چھوڑ جائیں گے بد قسمتی سے ہم
وہ  آتے  میری  حسرتوں کی آ س اوڑھ  کر
ان کی رہ  میں دیے جلا دیتے خوشی سے ہم

123
جو گریباں چاک تو  آنکھیں بھی نم  محرم ہے
 یہ خاک آلودہ ہیں سر حسیں کا  غم  محرم ہے
لٹے  ہیں یہ  قافلے تو خیمے جل چکے  ہیں
یہ اجڑی ہوئی ہے غریبِ  شام محرم ہے
سایہ وہ کر رہا ہے  ہر مومن کے گھر  پر
مولا  عباس کا ہے یہ تو علم محرم ہے

66
حسین زندہ ہے زندہ دلوں کا چارہ ہے
حسین صبر و تحمل کا  استعارہ ہے
وہ ظلم کے ہے مقابل نشاں امامت  کا
حسین سب کا  ہمارا  ہے نا تمہارا ہے

98
جس دل میں جاگزیں ہے محبت حسین کی
بے شک اسے نصیب ہے قربت حسین کی
وہ شمع ھدا وہ حق و  صداقت کا آفتاب
عالم پہ ہے محیطِ امامت حسین کے
سر کو  سجا کے شوق سے  نیزے کی نوک پر
شام و سحر کریں گے تلاوت حسین کی

0
52
جو اذاں اکبرؑ نے دی تھی کربلا کی  ریت پر
وہ صدا اب تک سنائی دے رہی ہے  بحر و بر
میرے آقا  اعزا داروں کی دعائیں ہوں قبول
تیرے در پر آئے ہیں ہم واسطہ زہرہ ؑ لے کر
ہائے قاسمؑ تیرے لاشے پر  لگے تھے کتنے زخم
نیزہ  گردن میں لگا  تیروں سے چھلنی تھا جگر

34
  پاکستاں  جو  رازوں میں  اک راز  خدا  کا ہے
  یہ نشان محمد اور علی سے وفا کا ہے
جو بغض رکھے گا مرے پاکستاں  سے عاصم
اس کا انجام بھی   عبرت ناک  سزا  کا ہے

71
زندگانی کا وجود ایک دو پل ہو جیسے
کوئی باضابطہ قانون اٹل ہو جیسے
ولولے حسن کی جدت کے ابھر آئے ہیں
نئی تہذیب و تمدن کی غزل ہو جیسے
زیست کو زیر و زبر دیکھ کے محسوس ہوا
پھیلنے اور سمٹنے کا عمل ہو جیسے

67
خوف اک وہی رہتا ہے مرے  خیالوں میں
کو فیوں  سی عادت ہے تیرے شہر والوں میں
بے مثال ہے تُو سب حسن کے حوالوں میں
میر کی غزل غالب ، جوش، کی مثالوں میں
لفظوں میں جو شامل ہے زہر تیرے لہجے کا
    کاٹ رکھتی ہے تیری یہ زباں سوالوں میں

41
سر سے دیوانگی نہیں جاتی
زندگی  کیوں سکوں  نہیں پاتی
شام کتنی اداس ہے جاناں
آج کی رات تو ٹھہر جاتی
جان کہہ کر اسے پکارا تھا
کیوں نہ آنچل ہوا میں لہراتی

0
65
مرشد بڑے دکھ درد سے لفظوں کو چنا ہے
آساں ہے سمجھنے میں تو اردو میں کہا ہے
ہر لفظ کو توں نے جو سلیقے سے چنا ہے
کیا خوب گلستانِ سخن میں یہ سجا ہے
طاقت پہ  نہ دولت پہ   بھروسہ کبھی  کرنا
یہ وقت کبھی ہاتھ میں کب آ  کے  رکا ہے

0
64
کبھی میں راز کی باتیں چھپانا بھول جاتا ہوں
جو تیرا نام لکھوں تو مٹانا بھول جاتا ہوں
بہت کچھ سوچتا ہوں بات دل کی میں کروں تم سے
جو ملنا  آپ سے ہو  تو  بتانا بھول جاتا ہوں
نجانے کیوں وہ وعدے آپ سے کر تا  ہوں میں اکثر
جو فکرِ روزگاری میں نبھانا بھول جاتا ہوں

0
143
آواز  جسے  دوں وہ صداؤں میں نہیں ہے
تم جیسا  کوئی ایک بھی گاؤں میں نہیں ہے
کس بات سے ڈرتے ہو تمہیں کون سی الجھن
کوئی بھی تو پتھر تری راہوں میں نہیں ہے
میں جان گیا ہوں تری مجبوریاں جاناں
   پازیب جو دی تھی ترے پاؤں میں نہیں ہے

0
117