ترے ذکر سے گل مہکنے لگے ہیں
پرندے ہوا میں چہکنے لگے ہیں
یہ ندیاں یہ جنگل یہ دریا کنارے
کہ پربت سے جھرنے بھی گرنے لگے ہیں
ستارے سبھی جھک گئے ہیں زمیں پر
ترا ماتھا ، رخسار چھونے لگے ہیں
ترے لمس سے نرم شاخوں کے پتے
ہواؤں کی بانہوں میں گرنے لگے ہیں
یہ بارش کے قطرے ترا نام لے کر
زمیں کی محبت میں بہنے لگے ہیں
ذکر جو ترے لب و رخسار کا تھا
تو یادوں کے سب پھول چننے لگے ہیں

0
3
22
عاصم صاحب گرامر صحیح کیجیئے ورنہ شاعری نہیں ہوتی - زبان کی درستی وزن کے بعد پہلی شرط ہے -
غزل کے معیار پہ بات نہیں کر رہا - زبان پہ کر رہا ہوں -
ایک عمومی قاعدہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے - جو دوسرے اشعار پہ منحصر نہیں ہوتا -
جو شبنم ہے سر سبز پتوں پہ گرتی
ترے ہونٹوں پر یہ مچلنے لگے ہیں
== شبنم اگر آپ کا فاعل ہے تو پھر دوسرے مصرعے میں "یہ" کیا ہے
اگر آپ اسے "وہ" بھی کردیں تو یہ ضمیر شبنم پہ جائے گی جو کہ "مچلنے لگی ہے" ہو گا - "لگے ہیں" نہیں ہوگا -
یہ سورج کی کرنیں ترا چہرہ چھو کر
سلامِ محبت وہ کہنے لگے ہیں
== وہ کون ہے ؟ - سورج کی کرنیں آپ کا پورا فاعل ہے تو جب وہ آُپ نے لکھ دیا ہے تو اسی کو "وہ" کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

ستارے سبھی جھک گئے ہیں زمیں پر
ترے ہونٹ رخسار چھونے لگے ہیں
یہ دوسرا مصرع تعقیدِِ لفظی کا شکار ہے گویا ہونٹ خود رخسار چھونے لگے ہیں یہ کتنی بھیانک بات ہوئی !
یہ بارش کے قطرے ترا نام لے کر
زمیں کی محبت میں بہنے لگے ہیں

تیرے نام اور زمیں کی محبت میں کیا تعلق ہے ؟

ذکر جو ترے لب و رخسار کا تھا
تو یادوں کے سب پھول چننے لگے ہیں
== سب کون ہوئے؟ سب کا فاعل اگر یادیں ہیں تو وہ اس سے بہت دور ہونے کی وجہ سے الگ ضمیر بن گیا ہے

0
ارشد صاحب آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اپنی قیمتی آرا سے نوازا ہم شاعری اپنے خبط کو مٹانے کے لیے کرتے ہیں ورنہ روزگار فکر سے ہی فرصت نہیں ملتی آپ کی خوبصورت اور معیاری تنقید کے پیش نظر کوشش کروں آئندہ کم سے کم غلطیاں کروں
شکر گزار ہوں آپ کا

0
جناب روزگار فکر نہیں بلکہ یہ ہوگا فکرِ روزگار یا زیادہ معروف اصطلاح ہے غمَ روزگار-
اور دوسری بات یہ کہ میری تنقید کے پیشِ نظر نہیں بلکہ اچھی شاعری کے پیشِ نظر غلطیوں پہ نظر رکھیں -

0