ترے ذکر سے گل مہکنے لگے ہیں
پرندے ہوا میں چہکنے لگے ہیں
جو شبنم ہے سر سبز پتوں پہ گرتی
ترے ہونٹوں پر یہ مچلنے لگے ہیں
یہ سورج کی کرنیں ترا چہرہ چھو کر
سلامِ محبت وہ کہنے لگے ہیں
ستارے سبھی جھک گئے ہیں زمیں پر
ترے ہونٹ رخسار چھونے لگے ہیں
ترے لمس سے نرم شاخوں کے پتے
ہواؤں کی بانہوں میں گرنے لگے ہیں
یہ بارش کے قطرے ترا نام لے کر
زمیں کی محبت میں بہنے لگے ہیں
ذکر جو ترے لب و رخسار کا تھا
تو یادوں کے سب پھول چننے لگے ہیں

0
1
4
عاصم صاحب گرامر صحیح کیجیئے ورنہ شاعری نہیں ہوتی - زبان کی درستی وزن کے بعد پہلی شرط ہے -
غزل کے معیار پہ بات نہیں کر رہا - زبان پہ کر رہا ہوں -
ایک عمومی قاعدہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے - جو دوسرے اشعار پہ منحصر نہیں ہوتا -
جو شبنم ہے سر سبز پتوں پہ گرتی
ترے ہونٹوں پر یہ مچلنے لگے ہیں
== شبنم اگر آپ کا فاعل ہے تو پھر دوسرے مصرعے میں "یہ" کیا ہے
اگر آپ اسے "وہ" بھی کردیں تو یہ ضمیر شبنم پہ جائے گی جو کہ "مچلنے لگی ہے" ہو گا - "لگے ہیں" نہیں ہوگا -
یہ سورج کی کرنیں ترا چہرہ چھو کر
سلامِ محبت وہ کہنے لگے ہیں
== وہ کون ہے ؟ - سورج کی کرنیں آپ کا پورا فاعل ہے تو جب وہ آُپ نے لکھ دیا ہے تو اسی کو "وہ" کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

ستارے سبھی جھک گئے ہیں زمیں پر
ترے ہونٹ رخسار چھونے لگے ہیں
یہ دوسرا مصرع تعقیدِِ لفظی کا شکار ہے گویا ہونٹ خود رخسار چھونے لگے ہیں یہ کتنی بھیانک بات ہوئی !
یہ بارش کے قطرے ترا نام لے کر
زمیں کی محبت میں بہنے لگے ہیں

تیرے نام اور زمیں کی محبت میں کیا تعلق ہے ؟

ذکر جو ترے لب و رخسار کا تھا
تو یادوں کے سب پھول چننے لگے ہیں
== سب کون ہوئے؟ سب کا فاعل اگر یادیں ہیں تو وہ اس سے بہت دور ہونے کی وجہ سے الگ ضمیر بن گیا ہے

0