ان گِنت آسمان کے تارے رقیب ہیں
ساحل کے ساتھ ساتھ کنارے رقیب ہیں
کانٹا چبھا تو ایک دم احساس ہو گیا
موسم کے دل فریب نظارے رقیب ہیں
ہائے تمہارے شہر میں بھی اتفاق سے
کوئی نہیں ہے  خیر خواہ سارے رقیب ہیں
رکھتا ہوں گلستاں میں قدم احتیاط سے
چونکہ میں جانتا ہوں شرارے رقیب ہیں
رہتے تھے ساتھ سائے کی مانند جو کبھی
عاصم وہ لوگ آج ہمارے رقیب ہیں

2
89
مزہ آیا سر جی

شکریہ جناب سلامت رہیں