ان گِنت آسمان کے تارے رقیب ہیں |
ساحل کے ساتھ ساتھ کنارے رقیب ہیں |
کانٹا چبھا تو ایک دم احساس ہو گیا |
موسم کے دل فریب نظارے رقیب ہیں |
ہائے تمہارے شہر میں بھی اتفاق سے |
کوئی نہیں ہے خیر خواہ سارے رقیب ہیں |
رکھتا ہوں گلستاں میں قدم احتیاط سے |
چونکہ میں جانتا ہوں شرارے رقیب ہیں |
رہتے تھے ساتھ سائے کی مانند جو کبھی |
عاصم وہ لوگ آج ہمارے رقیب ہیں |
معلومات