Circle Image

شاہ رئیس شمالی

@shaw

اسفل کو رب نے احسن تقویم کر دیا
انساں بنا کے صاحب تفہیم کر دیا
مسجود کرکے لائق تعظیم کر دیا
یوں ہر بشر کو لائق تکریم کر دیا

1
19
ہم نے پھولوں کو ہواؤں سے اُلجھتے دیکھا
بجلیوں سے کبھی طوفانوں سے لڑتے دیکھا
بادِ باران اورِ طوفانِ تو گزرے لیکن
پھول کو اپنی جگہ پھر بھی مہکتے دیکھا

2
21
بڑے تھے تم بڑے رہتے تو اچھا تھا
اصولوں پر کھڑے رہتے تو اچھا تھا
کبھی پی پی، کبھی لیگی، کبھی پی ٹی
سیاست سے بچے رہتے تو اچھا تھا
ہوا کے دوش پر اڑنے لگے یک دم
تم اپنوں سے جُڑے رہتے تو اچھا تھا

36
ہمارے بن میں کبھی کِھلتے تھے وہ پھول تمام
اُچھلتے کودتے پھرتے تھے بس عجولِ تمام
درخت کٹ گئے جنگل ہوا امولِ تمام
پھر آگئیں جو مشینیں ہوئے وہ مُول تمام
ہرا بھرا تھا بید و بُرج سے چارِ سو
ہوا وہ جھاڑ ختم بن ہوا فضول تمام

0
28
تمہیں بس غور سے دیکھا تھا پل بھر
دل و جاں پر عبارت ہو گئے ہو
نظر تم پر سے ہٹتی ہی نہیں ہے
ان آنکھوں کی ضرورت ہو گئے ہو
رئیس اٹھو میاں ! تم ہوش میں آؤ
کہاں تم غرقِ الفت ہو گئے ہو

0
30
جذبات کی موجوں کو رواں کر نہیں سکتا
احساس کو لفظوں میں بیاں کر نہیں سکتا
انجان سا طوفان بپا ہے مرے دل میں
اس کیفیت دل کو عیاں کر نہیں سکتا

42
دید کی حسرت لیئے سینے میں کل شب رئیسؔ
یار کے کوچے میں جا کرسعی کرتے رہے
غیر تو کرتے رہے اُن کے آنگن کا طواف
اور ہم اغیار کی بس رمی کرتے رہے

0
49
ایسی مُسکان کہ کلیوں کی ادا ہو جیسے
اتنی دلکش ہے کہ اک برگِ حِنا ہو جیسے
ایسے بیٹھے ہیں وہ آنگن میں اکیلے سرِِ شام
چاند اپنے ہی ستاروں سے خفا ہو جیسے

0
48
سر پہ دستار نہیں ہاتھ میں ہتھیار نہیں
دل وفادار نہیں آنکھ حیادار نہیں
بھول بیٹھے ہیں شریعت کے تقاضے اکثر
ہیں مسلمان بہت پر کوئی معیار نہیں

31
یوسفِ دہر تمہیں اب بھی نظر آئے گا
تم زلیخا کی نظر سے اُسے ڈھونڈو تو سہی
سینکڑوں ہوں گے پل بھر میں خریدار پیدا
مصر سا تم کوئی بازار سجا لو تو سہی
انگلیاں آج بھی کٹ کٹ کے گریں گی جانا
اپنے رُخسار سے زُلفوں کو ہٹا دو تو سہی

41
دل بدل جاتے ہیں، دلدار بدل جاتے ہیں
وقتِ کے ساتھ غم گُسارِ بدل جاتے ہیں
مفلسی دیکھ کے کچھ یار بدل جاتے ہیں
یار ہی کیا، در و دیوار بدل جاتے ہیں
یہ ہے دنیا، اسے رہنا ہے رواں اور دواں
ہاں، مگر وقت کے معیار بدل جاتے ہیں

1
150
کردار کے غازی نہ ہی گفتار کے غازی
ہم لوگ فقط بن گئے اخبار کے غازی
بندوق کے ہیں اور نہ ہی تلوار کے غازی
میلوں کے ہیں ہم اور ہیں تہوار کے غازی
ڈالر کے ہوئے اور کبھی دینار کے غازی
فارغ ہوئے بیٹھے ہیں یہ بے کار کے غازی

43
تو حُسن کا محور ہے، تو حُسن کا پیمانہ
تو واسطے میرے ہے اک گوہرِ یک دانہ
مُسکانِ لبوں پر لا ، آنکھو کو نہ نیچے رکھ
صدقہ ترے ہونٹوں کا، نینوں کا ہو نذرانہ
تم شمعِ فروزاں ہو، تم شعلۂ آتش ہو
جل جائے گا بس یوں ہی بےکار میں پروانہ

4
192
دُرِ یکتاِ جہاں تو مثلِ کوہ نور ہے
دنیا ئے حُسن کا تو بس اک بحرِ نور ہے
مجھ کو تمہارے حُسن پہ اتنا غرور ہے
جتنا تمہاری چشم سیہ میں سرور ہے
ہم جس قدر قریب ہیں اتنے ہی دور ہیں
جیسے کہ روز و شب کا مسلسل فتور ہے

1
85
تیرے حُسنِ میں کھو کر پاگل
تیرے عشقِ میں ہو کر پاگل
تیرا ہی بس لیتا ہے نام
ہنستے ہنستے رو کر پاگل

0
97
تتلیاں پھر لوٹ آئی ہیں، بتا دینا اُسے
موسمِ گُل کی خبر پھر سے سُنا دینا اُسے
کونپلیں بھی پھوٹ آئی ہیں گُلِ بادام پر
پھول بھی کِھلنے لگے ہیں، تم جتا دینا اسے
چاندنی راتوں میں پریاں بھی اُترتی تھیں یہاں
ذکر تک ان کا نہیں اب تو ، بتا دینا اسے

2
122
چاند تاروں کی قسم پھول اور خوشبو کی قسم
نجد کے دشت و جبل اور رمِ آہو کی قسم
چاند سے بڑھ کے ہے روشن تو اے زُہرہ جبیں
سرو کی لالہ و گُل اور ترے گیسو کی قسم

0
88
سامنے جب تم کھڑے ہو یہ نظارے سب فضول
پھول و خوشبو مسترد ہیں، اور شرارے سب فضول
باغ میں دلدار نکلے جب ٹہلنے کے لئے
حور و غلمان اور پریاں استعارے سب فضول
سورہِ یوسف میں چرچا حُسن یوسف کی قسم
چاندنی میں جگمگاتے چاند تارے سب فضول

95
آنکھوں سے اپنی آگ لگا دو کبھی کبھی
باتوں سے اپنی پھول کھلا دو کبھی کبھی
منت بھی ہے سوال بھی اورالتجا بھی ہے
مسکانِ تم لبوں پہ سجھا دو کبھی کبھی
بیٹھے ہیں تیری راہ میں آنکھیں بچھا کے ہم
ہم سے ملا کے ہاتھ دبا دو کبھی کبھی

269
تم مجھے زہر لگتے تو اچھا تھا
تمہیں کھا کر ہلاک ہو جاتا
روز مرنے سے تو بہتر تھا
ایک ہی پل میں خاک ہو جاتا

0
1
152