تمہیں بس غور سے دیکھا تھا پل بھر |
دل و جاں پر عبارت ہو گئے ہو |
نظر تم پر سے ہٹتی ہی نہیں ہے |
ان آنکھوں کی ضرورت ہو گئے ہو |
رئیس اٹھو میاں ! تم ہوش میں آؤ |
کہاں تم غرقِ الفت ہو گئے ہو |
یوسفِ دہر تمہیں اب بھی نظر آئے گا |
تم زلیخا کی نظر سے اُسے ڈھونڈو تو سہی |
سینکڑوں ہوں گے پل بھر میں خریدار پیدا |
مصر سا تم کوئی بازار سجا لو تو سہی |
انگلیاں آج بھی کٹ کٹ کے گریں گی جانا |
اپنے رُخسار سے زُلفوں کو ہٹا دو تو سہی |