| آنکھوں سے اپنی آگ لگا دو کبھی کبھی |
| باتوں سے اپنی پھول کھلا دو کبھی کبھی |
| منت بھی ہے سوال بھی اورالتجا بھی ہے |
| مسکانِ تم لبوں پہ سجھا دو کبھی کبھی |
| بیٹھے ہیں تیری راہ میں آنکھیں بچھا کے ہم |
| ہم سے ملا کے ہاتھ دبا دو کبھی کبھی |
| الفت کی سر زمیں پہ ہے سوکھا پڑا ہوا |
| آنکھوں سے ابر آپ گِرا دو کبھی کبھی |
| بجلی کبھی گرے کبھی خِرمن جلے ترا |
| دُشمن کو بھی تم ایسے دُعا دو کبھی کبھی |
| کاسہ ہمارے ہاتھ سے ہے ٹوٹ کر گرا |
| آنکھوں سے تم شراب پلا دو کبھی کبھی |
| دل میں رکھو نہ غم، نہ رکھو چشم اپنی نم |
| دل کا غُبار ہم پہ نکالو کبھی کبھی |
| ہر وقت تم اُداس ہی رہتے ہو کیوں رئیسؔ |
| دل سے غموں کا بوجھ اُتارو کبھی کبھی |
معلومات