| تتلیاں پھر لوٹ آئی ہیں، بتا دینا اُسے |
| موسمِ گُل کی خبر پھر سے سُنا دینا اُسے |
| کونپلیں بھی پھوٹ آئی ہیں گُلِ بادام پر |
| پھول بھی کِھلنے لگے ہیں، تم جتا دینا اسے |
| چاندنی راتوں میں پریاں بھی اُترتی تھیں یہاں |
| ذکر تک ان کا نہیں اب تو ، بتا دینا اسے |
| روشنی لے کر نکلتے تھے اماوس میں جو ہم |
| یاد ان رنگین راتوں کی دِلا دینا اسے |
| خُشک چشمے ہوگئے، پانی جہاں بھرتے تھے وہ |
| اب اُنھی ویران چشموں سے صدا دینا اُسے |
| رات بھر چوپال میں بیٹھے ہنسا کرتے تھے ہم |
| یاد وہ لمحات کروا کر رلا دینا اسے |
| بھول بیٹھا ہے سبھی کو شہر جا کر وہ رئیس! |
| ایک تصویر اور گاؤں کا پتا دینا اُسے |
معلومات